باب: قرض کی ادائیگی وراثت کی تقسیم سے قبل ہونی چاہیے اور حضرت جابرؓکی حدیث نقل کرنے والوں کے‘ اس حدیث میں‘ اختلاف الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Paying Off Debts Before Distributing Inheritance And Mentioning The Difference In The Wordings Of Th)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3637.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام ؓ ) فوت ہوگئے۔ ان کے ذمے کا کوئی قرض تھا۔ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی: اے اللہ کے رسول! میرے والد محترم شہید ہوگئے ہیں۔ ان پر کافی قرض ہے۔ انہوں نے (ادائیگی کے لیے) کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے اس کے جو کھجوریں پھل دیں گی‘ جبکہ کھجوروں کی پوری فصل بھی ان کا قرض نہ چکا سکے گی بلکہ کئی سال لگیں گے‘ لہٰذا اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ تشریف لے ۲چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ سے بدسلوکی نہ کریں‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا کر ہرڈھیر کے گرد گھومتے رہے اور برکت وسلامتی کی دعا فرماتے رہے‘ پھر اوپر بیٹھ گئے اور قرض خواہوں کو بلایا۔ پھر انہیں پورا پورا قرض ادا کیا۔ پھر بھی اتنی کھجوریں بچ رہیں جتنی ان لوگوں (قرض خواہوں) نے لیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3641
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3639
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3667
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام ؓ ) فوت ہوگئے۔ ان کے ذمے کا کوئی قرض تھا۔ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی: اے اللہ کے رسول! میرے والد محترم شہید ہوگئے ہیں۔ ان پر کافی قرض ہے۔ انہوں نے (ادائیگی کے لیے) کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے اس کے جو کھجوریں پھل دیں گی‘ جبکہ کھجوروں کی پوری فصل بھی ان کا قرض نہ چکا سکے گی بلکہ کئی سال لگیں گے‘ لہٰذا اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ تشریف لے ۲چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ سے بدسلوکی نہ کریں‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا کر ہرڈھیر کے گرد گھومتے رہے اور برکت وسلامتی کی دعا فرماتے رہے‘ پھر اوپر بیٹھ گئے اور قرض خواہوں کو بلایا۔ پھر انہیں پورا پورا قرض ادا کیا۔ پھر بھی اتنی کھجوریں بچ رہیں جتنی ان لوگوں (قرض خواہوں) نے لیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا، میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا اور کھجوروں کے باغ کی آمدنی کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور کئی سالوں کی باغ کی آمدنی کے بغیر یہ قرض ادا نہ ہو سکے گا، اللہ کے رسول! میرے ساتھ چلئے تاکہ قرض خواہ لوگ مجھے برا بھلا نہ کہیں، چنانچہ آپ کھجور کی ایک ایک ڈھیر کے اردگرد گھومے اور اس کے آس پاس سلام کیا اس کے لیے دعا فرمائی اور پھر اسی پر بیٹھ گئے اور قرض خواہوں کو بلایا اور انہیں (ان کا حق) پورا پورا دیا اور جتنا وہ لے گئے اتنا ہی بچ رہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jabir that his father died owing debts. "I came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: '(O Messenger of Allah!) My father has died owing debts, and he has not left anything but what his date-palms produce. What his date-palms produce will not pay off his debts for years. Come with me, O Messenger of Allah, so that the creditors will not be harsh with me.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) went to each heap, saying Salams and supplicating for it, then sitting on it. He called the creditors and paid them off, and what was left was as much as what they had taken.