باب: قرض کی ادائیگی وراثت کی تقسیم سے قبل ہونی چاہیے اور حضرت جابرؓکی حدیث نقل کرنے والوں کے‘ اس حدیث میں‘ اختلاف الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Paying Off Debts Before Distributing Inheritance And Mentioning The Difference In The Wordings Of Th)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3638.
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ (میرے والد محترم) حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام ؓ فوت ہوگئے اور بہت سا قرض اپنے ذمے چھوڑ گئے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ان کے قرض خواہوں سے سفارش فرمائیں کہ وہ ان کے ذمے کچھ قرض معاف کردیں۔ آپ نے ان سے کہا مگر ان لوگوں نے بات نہ مانی۔ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جاؤ! ہر قسم کی کھجوریں الگ الگ رکھو۔ عجوہ الگ‘ عذق ابن زید الگ‘ اسی طرح دوسری۔ پھر مجھے پیغام بھیجنا۔“ میں نے اسی طرح کیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ اور ان کے اوپر یا درمیان میں بیٹھ گئے اور فرمایا: ”انہیں ماپ کردو۔“ میں نے انہیں ماپ ماپ کر دینی شروع کردیں حتیٰ کہ سب کو ان کا قرض پورا پورا ادا کردیا‘ پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں گویا کہ ان میں کچھ بھی کمی نہ آئی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3642
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3640
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3668
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ (میرے والد محترم) حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام ؓ فوت ہوگئے اور بہت سا قرض اپنے ذمے چھوڑ گئے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ان کے قرض خواہوں سے سفارش فرمائیں کہ وہ ان کے ذمے کچھ قرض معاف کردیں۔ آپ نے ان سے کہا مگر ان لوگوں نے بات نہ مانی۔ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جاؤ! ہر قسم کی کھجوریں الگ الگ رکھو۔ عجوہ الگ‘ عذق ابن زید الگ‘ اسی طرح دوسری۔ پھر مجھے پیغام بھیجنا۔“ میں نے اسی طرح کیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ اور ان کے اوپر یا درمیان میں بیٹھ گئے اور فرمایا: ”انہیں ماپ کردو۔“ میں نے انہیں ماپ ماپ کر دینی شروع کردیں حتیٰ کہ سب کو ان کا قرض پورا پورا ادا کردیا‘ پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں گویا کہ ان میں کچھ بھی کمی نہ آئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام ؓ انتقال فرما گئے اور (اپنے ذمہ لوگوں کا) قرض چھوڑ گئے تو میں نے ان کے قرض خواہوں سے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ قرض میں کچھ کمی کر دینے کی سفارش کرائی تو آپ نے ان سے کم کرانے کی گزارش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کو الگ الگ کر دو، عجوہ کو علیحدہ رکھو اور عذق بن زید اور دوسری قسموں کو الگ الگ کرے کے رکھو۔ پھر مجھے بلاؤ“ ، تو میں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور سب سے اونچی والی ڈھیر پر یا بیچ والی ڈھیر پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے فرمایا: ”لوگوں کو ناپ ناپ کر دو“، جابر ؓ کہتے ہیں: تو میں انہیں ناپ ناپ کر دینے لگا یہاں تک کہ میں نے سبھی کو پورا پورا دے دیا پھر بھی میری کھجوریں بچی رہیں، ایسا لگتا تھا کہ میری کھجوروں میں کچھ بھی کمی نہیں آئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: "Abdullah bin 'Amr bin Haram died, leaving behind debts. I asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) to intercede with his creditors so that they would waive part of the debt. He asked them to do that but they refused. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to me: 'Go and sort your dates into their different kinds: The 'Ajwah on one side, the cluster of Ibn Zaid on another side, and so on. Then send for me.' I did that, then the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) came and sat at the head or in the middle of the heaps. Then he said: 'Measure them out for the people.' So I measured them out for them until I had paid them all off, and my dates were left as if nothing had been taken from them.