باب: قرض کی ادائیگی وراثت کی تقسیم سے قبل ہونی چاہیے اور حضرت جابرؓکی حدیث نقل کرنے والوں کے‘ اس حدیث میں‘ اختلاف الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Paying Off Debts Before Distributing Inheritance And Mentioning The Difference In The Wordings Of Th)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3639.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: ایک یہودی نے میرے والد محترم سے کچھ کھجوریں لینی تھیں۔ وہ جنگ احد کے دن شہید ہوگئے اور دو باغ چھوڑ گئے۔ لیکن (میرے اندازے کے مطابق) اس یہودی کا قرض دونوں باغوں کے پھل کے برابر تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے یہودی سے کہا: کیا تو اتنی رعایت کرے گا کہ نصف قرض اس سال لے لے اور نصف بعد میں لے لینا۔“ یہودی نے انکار کردیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جب کھجوروں کی کٹائی پوری ہوجائے تو مجھے بتانا۔“ چنانچہ میں نے وقت پر بتایا تو آپ ﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ تشریف لائے۔ نیچے سے کھجوریں ماپ ماپ کر دی جاتی رہیں اور رسول اللہ ﷺ برکت کی دعا فرماتے رہے۔ حتیٰ کہ چھوٹے باغ ہی سے ہم نے اسے اس کا قرض پورا کردیا‘ پھر میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے پاس تازہ کھجوریں اور پانی لایا۔ سب نے کھایا اور پیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3643
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3641
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3669
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: ایک یہودی نے میرے والد محترم سے کچھ کھجوریں لینی تھیں۔ وہ جنگ احد کے دن شہید ہوگئے اور دو باغ چھوڑ گئے۔ لیکن (میرے اندازے کے مطابق) اس یہودی کا قرض دونوں باغوں کے پھل کے برابر تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے یہودی سے کہا: کیا تو اتنی رعایت کرے گا کہ نصف قرض اس سال لے لے اور نصف بعد میں لے لینا۔“ یہودی نے انکار کردیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جب کھجوروں کی کٹائی پوری ہوجائے تو مجھے بتانا۔“ چنانچہ میں نے وقت پر بتایا تو آپ ﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ تشریف لائے۔ نیچے سے کھجوریں ماپ ماپ کر دی جاتی رہیں اور رسول اللہ ﷺ برکت کی دعا فرماتے رہے۔ حتیٰ کہ چھوٹے باغ ہی سے ہم نے اسے اس کا قرض پورا کردیا‘ پھر میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے پاس تازہ کھجوریں اور پانی لایا۔ سب نے کھایا اور پیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد کے ذمہ ایک یہودی کی کھجوریں تھیں، اور وہ جنگ احد میں قتل کر دیے گئے اور کھجوروں کے دو باغ چھوڑ گئے، یہودی کی کھجوریں دو باغوں کی کھجوریں ملا کر پوری پڑ رہی تھیں تو نبی اکرم ﷺ نے (یہودی سے) فرمایا: ”کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم اس سال اپنے قرض کا آدھا لے لو اور آدھا دیر کر کے (اگلے سال) لے لو؟“، یہودی نے (ایسا کرنے سے) انکار کر دیا، نبی اکرم ﷺ نے (مجھ سے فرمایا:) ”کیا تم پھل توڑتے وقت مجھے خبر کر سکتے ہو؟“، تو میں نے آپ کو پھل توڑتے وقت خبر کر دی تو آپ اور ابوبکر ؓ تشریف لائے اور (کھجور کے) نیچے سے نکال کر الگ کرنے اور ناپ ناپ کر دینے لگے اور رسول اللہ ﷺ برکت کی دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ چھوٹے باغ ہی کے پھلوں سے اس کے پورے قرض کی ادائیگی کر دی، پھر میں ان دونوں حضرات کے پاس (بطور تواضع) تازہ کھجوریں اور پانی لے کر آیا، تو ان لوگوں نے کھایا پیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم لوگوں سے پوچھ تاچھ ہو گی.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
"My father owed some dates to a Jew. He was killed on the Day of Uhud and he left behind two gardens. The dates owed to the Jew would take up everything in the two gardens. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Can you take half this year and half next year?' But the Jew refused. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'When the time to pick the dates comes, call me.' So I called him and he came, accompanied by Abu Bakr. The dates were picked and weighed from the lowest part of the palm trees, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) was praying for blessing, until we paid off everything that we owed him from the smaller of the two gardens, as calculated by 'Ammar. Then I brought them some fresh dates and water and they ate and drank, then he said: 'This is part of the blessing concerning which you will be questioned.