Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Invalidating Bequests To Heirs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3642.
حضرت ابن خارجہ ؓ نے ذکر فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اپنی سواری پر خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا اور سنا ہے‘ جبکہ سواری جگالی کررہی تھی اور اس کا لعاب (میرے کندھے کے درمیان) گر رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو وراثت میں سے حصہ دے دیا ہے‘ لہٰذا وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔“
تشریح:
(1) ”لعاب گر رہاتھا“ گویا یہ اونٹنی کی گردن کے نیچھے کھڑے تھے۔ ممکن ہے ادباً مہارپکڑ رکھی ہو۔ (2) ”ہرشخص کو“ یعنی جسے وراثت کا اہل سمجھا۔ اکثر ورثاء کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ بعض ورثاء کے حصوں کا ذکر احادیث میں ہے‘ مثلاً: دادی‘ نانی کاحصہ۔ ان سب حصوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے کیونکہ حدیث بھی تو وحی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3646
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3644
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3672
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت ابن خارجہ ؓ نے ذکر فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اپنی سواری پر خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا اور سنا ہے‘ جبکہ سواری جگالی کررہی تھی اور اس کا لعاب (میرے کندھے کے درمیان) گر رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو وراثت میں سے حصہ دے دیا ہے‘ لہٰذا وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”لعاب گر رہاتھا“ گویا یہ اونٹنی کی گردن کے نیچھے کھڑے تھے۔ ممکن ہے ادباً مہارپکڑ رکھی ہو۔ (2) ”ہرشخص کو“ یعنی جسے وراثت کا اہل سمجھا۔ اکثر ورثاء کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ بعض ورثاء کے حصوں کا ذکر احادیث میں ہے‘ مثلاً: دادی‘ نانی کاحصہ۔ ان سب حصوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے کیونکہ حدیث بھی تو وحی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ نے ذکر کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس خطبہ میں موجود تھے جو آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر دے رہے تھے، سواری جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میراث سے ہر انسان کا حصہ تقسیم فرما دیا ہے تو کسی وارث کے لیے وصیت کرنا درست اور جائز نہیں ہے.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Shahr bin Hawshab that Ibn Ghanm mentioned that Ibn Kharijah told him that he saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) addressing the people from atop his mount, which was chewing its cud and its saliva was dripping down. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said in his Khutbah: "Allah has given each person a share of the inheritance, and it is not permissible to give bequests to an heir.