باب: باپ کا اپنے بیٹے کو عطیہ دے کر واپس لینے کا بیان اور اس مسئلے میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Gifts
(Chapter: A Father Taking Back That Which He Gave To His Son, And Mentioning The Varying Reports Of The Narrat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3689.
حضرت عمروبن شعیب کے پردادا محترم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص ہبہ کرکے واپس نہیں لے سکتا مگر والد اپنی اولاد سے واپس لے سکتا ہے۔ اور ہبہ کرکے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے پھر چاٹتا ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے دومسئلے معلوم ہوتے ہیں: ٭ہبہ میں رجوع حرام ہے۔ ٭والد کے لیے رجوع جائز ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ احناف نے ان دونوں میں معاملہ الٹ دیا ہے۔ ان کے نزدیک ہبہ میں رجوع جائز ہے مگر باپ یا محرم رشتہ دار رجوع نہیں کرسکتا۔ دلیل یہ ہے کہ محرم رشتہ دار کا ہبہ صلہ رحمی ہے اور صلہ رحمی کو قطع کرنا جائز نہیں‘ بخلاف اجنبی شخص کے کہ اس کا ہبہ تو اس کی خوشی پر موقوف ہے‘ لہٰذا جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف کس دھڑلے سے عقلی ڈھکوسلے گھڑے جاسکتے ہیں‘ حالانکہ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ جب کوئی چیز کسی کو ہبہ کردی جاتی تو وہ اس کی ملک بن جاتی ہے۔ کسی کی ملک سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر چھیننا جائز نہیں‘ لہٰذا اس کے لیے رجوع درست نہیں‘ البتہ والد اپنی اولاد کی ملک سے کسی وقت کوئی چیز بلااجازت لے سکتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے رجوع بھی جائز ہے۔ یہ عقلی توجیہ اس حدیث کے بھی موافق ہے: [أنتَ ومالُكَ لأبيكَ]”تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔“(سنن ابن ماجه‘ التجارات‘ باب ماللرجل من مال ولده‘ حدیث: ۲۲۹۱) (مزید دیکھیے‘ حدیث: ۳۷۳۲ٌ) (2) ”اس کتے کی طرح ہے“ اور کتے سے مشابہت حرام ہے‘ لہٰذا یہ کام بھی حرام ہے۔ چونکہ احناف رجوع کو جائز سمجھتے ہیں‘ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ کتے کے لیے قے چاٹنا کون سا حرام ہے کہ رجوع حرام ہو۔ یہ تو صریح تقبیح کے لیے ہے‘ حالانکہ آئندہ حدیث میں صراحتاً لاَ یَحِلُّ کے الفاظ ہیں۔ حدیث پر عمل کرنا ہی نجات دے گا۔ تاویلیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ (3) ایسی چیز جو شریعت میں منع ہے اس سے نفرت دلانے کے لیے کسی قبیح چیز کی مثال دینا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3693
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3691
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3719
تمہید کتاب
کسی چیز بلاعوض کسی کی ملک میں دے دینا ہبہ کہلاتا ہے‘ چاہے اس سے ثواب مقصود نہ ہو۔ اگر ثواب مقصود ہو تو اسے صدقہ کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوجاتے ہیں۔
تمہید باب
یہ اختلاف سند میں ہے۔ وہ یہ کہ بعض نے اسے عبداللہ بن عمروبن عاص کی مسند بنایا ہے‘ بعض نے ابن عمر اور بعض نے ابن عباس کی۔ پھر بعض نے موصول بیان کیا ہے اور بعض نے مرسل۔ لیکن اس اختلاف سے حدیث کی صحت متاثر نہیں ہوتی جیسا کہ پہلے کئی بار بیان ہوچکا ہے۔
حضرت عمروبن شعیب کے پردادا محترم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص ہبہ کرکے واپس نہیں لے سکتا مگر والد اپنی اولاد سے واپس لے سکتا ہے۔ اور ہبہ کرکے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے پھر چاٹتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے دومسئلے معلوم ہوتے ہیں: ٭ہبہ میں رجوع حرام ہے۔ ٭والد کے لیے رجوع جائز ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ احناف نے ان دونوں میں معاملہ الٹ دیا ہے۔ ان کے نزدیک ہبہ میں رجوع جائز ہے مگر باپ یا محرم رشتہ دار رجوع نہیں کرسکتا۔ دلیل یہ ہے کہ محرم رشتہ دار کا ہبہ صلہ رحمی ہے اور صلہ رحمی کو قطع کرنا جائز نہیں‘ بخلاف اجنبی شخص کے کہ اس کا ہبہ تو اس کی خوشی پر موقوف ہے‘ لہٰذا جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف کس دھڑلے سے عقلی ڈھکوسلے گھڑے جاسکتے ہیں‘ حالانکہ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ جب کوئی چیز کسی کو ہبہ کردی جاتی تو وہ اس کی ملک بن جاتی ہے۔ کسی کی ملک سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر چھیننا جائز نہیں‘ لہٰذا اس کے لیے رجوع درست نہیں‘ البتہ والد اپنی اولاد کی ملک سے کسی وقت کوئی چیز بلااجازت لے سکتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے رجوع بھی جائز ہے۔ یہ عقلی توجیہ اس حدیث کے بھی موافق ہے: [أنتَ ومالُكَ لأبيكَ]”تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔“(سنن ابن ماجه‘ التجارات‘ باب ماللرجل من مال ولده‘ حدیث: ۲۲۹۱) (مزید دیکھیے‘ حدیث: ۳۷۳۲ٌ) (2) ”اس کتے کی طرح ہے“ اور کتے سے مشابہت حرام ہے‘ لہٰذا یہ کام بھی حرام ہے۔ چونکہ احناف رجوع کو جائز سمجھتے ہیں‘ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ کتے کے لیے قے چاٹنا کون سا حرام ہے کہ رجوع حرام ہو۔ یہ تو صریح تقبیح کے لیے ہے‘ حالانکہ آئندہ حدیث میں صراحتاً لاَ یَحِلُّ کے الفاظ ہیں۔ حدیث پر عمل کرنا ہی نجات دے گا۔ تاویلیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ (3) ایسی چیز جو شریعت میں منع ہے اس سے نفرت دلانے کے لیے کسی قبیح چیز کی مثال دینا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص کسی کو کوئی چیز بطور ہبہ دے کر واپس نہیں لے سکتا، سوائے باپ کے کہ وہ اپنے بیٹے کو دے کر پھر واپس لے سکتا ہے، (سن لو) ہبہ کر کے واپس لینے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی قے کرے کے چاٹے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'No one should take back his gift except a father (taking back a gift) from his son. The one who takes back his gift is like one who goes back to his vomit.