باب: ا س مسئلے کی بابت حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی روایت میں ابن ابی نحیح پر اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of ar-Ruqba
(Chapter: Mentioning The Different Reports From Ibn Abi Najih Concerning The Narration Of Zaid Bin Thabit)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3707.
حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رقبیٰ مستقلاً اسی شحص کے لیے بنا دیا جسے وہ دیا گیا تھا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
. قلت : وهو على شرط مسلم مع عنعنة أبي الزبير . ولابن جريج فيه إسناد آخر فقال : أني عطاء عن حبيب بن أبي ثابت عن إبن عمر رضي الله عنهما مرفوعا بلفظ : * ( هامش ) * ( 1 ) ولهذا اللفظ شاهد من حديث زيد بن ثابت مرفوعا . اخرجه أحمد ( 5 / 189 ) وأبو داود ( 3559 ) والنسائي ( 2 / 135 ) وابن حبان ( 1149 ) مختصرا وسنده صحيح . ( * )
(6/53)
لا رقبى ولا عمرى فمن أعمر شيئا أو أرقبه فهو له حياته ومماته . قال : والرقبى أن يقول هو للآخر : مني ومنك والعمرى أن يجعل له حياته أن يعمره حياتهما . قال عطاء : فإن أعطاه سنة أو سنتين أو شيئا يسميه فهي منحة يمنحها إياه ليس بعمرى . أخرجه ابن الجارود ( 990 ) . وأخرجه النسائي أيضا ( 2 / 136 ) وابن ماجه ( 2382 ) وأحمد ( 2 / 26 ( 34 ، 73 ) من طرق عن ابن جريج به . قلت : ورجاله ثقات رجال الشيخين لكن حبيبا مدلس وقد عنعنه بل قال النسائي في روايته عن عطاء عنه عن ابن عمر : ولم يسمعه منه . وخالفه يزيد بن أبي زياد بن الجعد فقال : عن حبيب بن أبي ثابت قال : سمعت ابن عمر يقول : فذكره بنحوه . أخرجه النسائي . ولذلك قال الحافظ في الفتح ( 5 / 177 ) بعد أن ذكره باللفظ الأول من طريق النسائي : ورجاله ثقات لكن اختلف في سماع حبيب له من إبن عمر فصرح به النسائي من طريق ونفاه في طريق أخرى . قلت : والمثبت مقدم على النافي لو كان المثبت وهو يزيد بن أبي زياد في منزلة النافي وهو عطاء بن أبي رباح في الحفظ والضبط وليس كذلك فإن يزيد هذا وإن كان ثقة ولكنه لم يعرف بالضبط مثل عطاء ولذلك لا يطمئن القلب للأخذ بزيادته . والله أعلم . وللحديث شاهد من رواية أي الزبير عن طاوس عن إبن عباس عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال : لا ترقبوا أموالكم فمن أرقب شيئا فهو للذي أرقبه . والرقبى أن يقول الرجل : هذا لفلان ما عاش فإن مات فلان فهو لفلان . أخرجه ابن حبان ( 1151 ) والضياء في المختارة ( 62 / 281 / 1 ) بتمامه
(6/54)
وأحمد ( 1 / 250 ) مختصرا . قلت : ورجاله ثقات إلا أن فيه عنعنة أبي الزبير
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3711
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3709
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3737
تمہید کتاب
رقبیٰ بھی تحفہ اور عطیہ کی ایک صورت ہے۔ ایک شخص دوسرے کو کوئی چیز بطور تحفہ دے اور کہے: اگر میں تجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تحفہ تیرے پاس ہی رہے گا اور اگر تو مجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تحفہ واپس آجائے گا‘ مثلاً: گھر وغیرہ۔ اسے رقبیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کرتا ہے۔ اور رقبیٰ بھی انتظار کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ کوئی اچھی صورت نہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار بلکہ خواہش کرے‘ لہٰذا شریعت نے اس شرط کو باطل قراردیا ہے۔ اب جو شخص کسی کو عطیہ کرے گا اور وہ عطیہ اس کے آخری سانس تک اس کے پاس رہے تو وہ مرنے کے بعد بھی واپس نہیں آئے گا بلکہ اس کا ترکہ شمار ہوگا اور اس کے ورثاء کو ملے گا‘ ہاں جو چیز کسی کو کچھ عرصے کے لیے دی جائے‘ مثلاً: سال‘ دوسال‘ دس سال وغیرہ‘ وہ وقت مقررہ کے بعد واپس آجائے گی۔
تمہید باب
اختلاف یہ ہے کہ عبیداللہ بن عمرو حضرت طاوس اور زید بن ثابت کے درمیان واسطہ بیان نہیں کرتے‘ محمد بن یوسف فریابی درمیان میں ’’کسی آدمی‘‘ کا واسطہ بیان کرتے ہیں اور عبدالجبار بن علاء اسے ابن عباس سے موقوفاً بیان کرتے ہیں‘ یعنی حضرت زیدبن ثابت کی حدیث کی سند مضطرب ہے لیکن اس کا متن حضرت جابر اور حضرت ابوہریرہ سے صحیح ثابر ہے جیسا کہ آگے یہ احادیث آرہی ہیں۔
حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رقبیٰ مستقلاً اسی شحص کے لیے بنا دیا جسے وہ دیا گیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رقبیٰ کو اسی کا حق قرار دیا ہے جسے رقبیٰ کیا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گویا کہ یہ ایک عطیہ ہے اور عطیہ دے کر واپس لینا صحیح نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad bin 'Ali bin Maimun informed us, he said: "Muhammad -he is, Ibn Yusuf- narrated to us, he said: 'Sufyan narrated to us from Ibn Abi Najih, from Tawus, from a man, from Zaid bin Thabit that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) ruled that the Ruqba belongs to the one to whom it is given.