باب: ا س مسئلے کی بابت حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی روایت میں ابن ابی نحیح پر اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of ar-Ruqba
(Chapter: Mentioning The Different Reports From Ibn Abi Najih Concerning The Narration Of Zaid Bin Thabit)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3708.
شاید حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے‘ انہوں نے فرمایا: رقبیٰ واپس نہیں آئے گا‘ چنانچہ جو شخص کسی کو کوئی چیز رقبیٰ دے گا تو وہ چیز اس شخص کی میراث بن جائے گی۔
تشریح:
(1) ”رقبیٰ واپس نہیں آئے گا۔“ یعنی رقبیٰ کی رائج صورت معتبر نہیں۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ رقبیٰ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ عطیہ کی اچھی صورت نہیں۔ لیکن اگر کو ئی شخص کرے گا تو واپس کی شرط غیر معتبر ہوگی بلکہ جسے دے دیا گیا تھا‘ اس کے ورثاء کو اس کی وفات کے بعد مل جائے گا۔ (2) ”شاید“ عبدالجبار بن علاء کو شک ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3712
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3710
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3738
تمہید کتاب
رقبیٰ بھی تحفہ اور عطیہ کی ایک صورت ہے۔ ایک شخص دوسرے کو کوئی چیز بطور تحفہ دے اور کہے: اگر میں تجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تحفہ تیرے پاس ہی رہے گا اور اگر تو مجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تحفہ واپس آجائے گا‘ مثلاً: گھر وغیرہ۔ اسے رقبیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کرتا ہے۔ اور رقبیٰ بھی انتظار کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ کوئی اچھی صورت نہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار بلکہ خواہش کرے‘ لہٰذا شریعت نے اس شرط کو باطل قراردیا ہے۔ اب جو شخص کسی کو عطیہ کرے گا اور وہ عطیہ اس کے آخری سانس تک اس کے پاس رہے تو وہ مرنے کے بعد بھی واپس نہیں آئے گا بلکہ اس کا ترکہ شمار ہوگا اور اس کے ورثاء کو ملے گا‘ ہاں جو چیز کسی کو کچھ عرصے کے لیے دی جائے‘ مثلاً: سال‘ دوسال‘ دس سال وغیرہ‘ وہ وقت مقررہ کے بعد واپس آجائے گی۔
تمہید باب
اختلاف یہ ہے کہ عبیداللہ بن عمرو حضرت طاوس اور زید بن ثابت کے درمیان واسطہ بیان نہیں کرتے‘ محمد بن یوسف فریابی درمیان میں ’’کسی آدمی‘‘ کا واسطہ بیان کرتے ہیں اور عبدالجبار بن علاء اسے ابن عباس سے موقوفاً بیان کرتے ہیں‘ یعنی حضرت زیدبن ثابت کی حدیث کی سند مضطرب ہے لیکن اس کا متن حضرت جابر اور حضرت ابوہریرہ سے صحیح ثابر ہے جیسا کہ آگے یہ احادیث آرہی ہیں۔
شاید حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے‘ انہوں نے فرمایا: رقبیٰ واپس نہیں آئے گا‘ چنانچہ جو شخص کسی کو کوئی چیز رقبیٰ دے گا تو وہ چیز اس شخص کی میراث بن جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”رقبیٰ واپس نہیں آئے گا۔“ یعنی رقبیٰ کی رائج صورت معتبر نہیں۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ رقبیٰ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ عطیہ کی اچھی صورت نہیں۔ لیکن اگر کو ئی شخص کرے گا تو واپس کی شرط غیر معتبر ہوگی بلکہ جسے دے دیا گیا تھا‘ اس کے ورثاء کو اس کی وفات کے بعد مل جائے گا۔ (2) ”شاید“ عبدالجبار بن علاء کو شک ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رقبیٰ (مصلحتاً جائز) نہیں ہے (لیکن اگر کسی نے کر دیا ہے) تو جسے رقبیٰ کیا گیا ہے اس کے ورثاء کو میراث میں ملے گا، دینے والے کو واپس نہ ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zakariyya bin Yahya informed us, he said: "Abdul Jabbar bin Al-'Ala' narrated to us, he said: 'Sufyan narrated to us from Ibn Abi Najih, from Tawus, and perhaps it is from Ibn 'Abbas, who said: There is no Ruqba, and whoever gives a gift on the basis of Ruqba, it is part of his estate.