Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: The Stern Warning Against Swearing By Anything Other Than Allah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3764.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھانا چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم نہ کھائے۔“ قریش اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں کھایا کرتے تھے‘ لہٰذا آپ نے فرمایا: ”اپنے آباؤاجداد کی قسمیں نہ کھایا کرو۔“
تشریح:
(1) قسم انتہائی معظم ذات کی کھائی جاتی ہے۔ اور حقیقتاً معظم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے‘ لہٰذا قسم اسی کے نام کی ہونی چاہیے۔ آباؤ اجداد اگرچہ تعظیم ہیں مگر وہ حقیقتاً صاحب عظمت نہیں‘ لہٰذا ان کے نام کی قسم کھانا جائز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق کہ انبیاء‘ ملائکہ اور کعبہ وغیرہ کی قسم بھی ممنوع ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بھی عبادت جائز نہیں۔ گویا قسم بھی عبادت ہے۔ (2) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوقات کی قسمیں کھائی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قسم تعظیم کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ استدلال کی خاطر ہوتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات شرعی اصول کی صحت وصداقت پر گواہ ہیں۔ (3) غیر اللہ کے نام پر کھائی گئی قسم کا انعقاد نہیں ہوگا کیونکہ یہ حرام ہے۔ ایسی قسم کھانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے استغفار کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3773
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3773
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3795
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھانا چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم نہ کھائے۔“ قریش اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں کھایا کرتے تھے‘ لہٰذا آپ نے فرمایا: ”اپنے آباؤاجداد کی قسمیں نہ کھایا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) قسم انتہائی معظم ذات کی کھائی جاتی ہے۔ اور حقیقتاً معظم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے‘ لہٰذا قسم اسی کے نام کی ہونی چاہیے۔ آباؤ اجداد اگرچہ تعظیم ہیں مگر وہ حقیقتاً صاحب عظمت نہیں‘ لہٰذا ان کے نام کی قسم کھانا جائز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق کہ انبیاء‘ ملائکہ اور کعبہ وغیرہ کی قسم بھی ممنوع ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بھی عبادت جائز نہیں۔ گویا قسم بھی عبادت ہے۔ (2) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوقات کی قسمیں کھائی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قسم تعظیم کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ استدلال کی خاطر ہوتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات شرعی اصول کی صحت وصداقت پر گواہ ہیں۔ (3) غیر اللہ کے نام پر کھائی گئی قسم کا انعقاد نہیں ہوگا کیونکہ یہ حرام ہے۔ ایسی قسم کھانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے استغفار کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو قسم کھائے تو وہ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم نہ کھائے“، اور قریش اپنے باپ دادا کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'Whoever swears, let him not swear by anything other than Allah.'" The Quraish used to swear by their forefathers, and so he said: "Do not swear by your forefathers.