Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Swearing By One's Forefathers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3766.
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ) سے راویت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو ایک دفعہ کہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرماتا ہے۔“ (حضرت عمر ؓ نے فرمایا:) اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کبھی بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔ نہ اپنے طور پر‘ نہ کسی کی نقل کرتے ہوئے۔
تشریح:
(1) ”اپنے طور پر“ یعنی خود قصداً قسم کھائی ہو۔ اور ”نقل کرتے ہوئے“ یعنی فلاں نے یہ قسم کھائی۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا وہ اسی اطاعت اور فرماں برداری کی بنا پر تھا۔ دوبارہ کبھی اس بات کو نہ دہرایا جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرما دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3775
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3775
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3797
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ) سے راویت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو ایک دفعہ کہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرماتا ہے۔“ (حضرت عمر ؓ نے فرمایا:) اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کبھی بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔ نہ اپنے طور پر‘ نہ کسی کی نقل کرتے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”اپنے طور پر“ یعنی خود قصداً قسم کھائی ہو۔ اور ”نقل کرتے ہوئے“ یعنی فلاں نے یہ قسم کھائی۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا وہ اسی اطاعت اور فرماں برداری کی بنا پر تھا۔ دوبارہ کبھی اس بات کو نہ دہرایا جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرما دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار نبی اکرم ﷺ نے عمر ؓ کو کہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ۔“ (عمر ؓ کہتے ہیں) اللہ کی قسم! اس کے بعد پھر میں نے کبھی ان کی قسم نہیں کھائی، نہ تو خود اپنی بات بیان کرتے ہوئے اور نہ ہی دوسرے کی بات نقل کرتے ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim, from his father, that on one occasion the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) heard 'Umar saying: "By my father and by my mother." He said: "Allah forbids you to swear by your forefathers." 'Umar said: "By Allah, I never swore by them again, whether saying it for myself or reporting it of others.