Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Swearing By Al-Lat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3775.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص لات کی قسم کھائے‘ وہ کہے: لا الہ الا اللہ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں) اور جو شخص اپنے ساتھی سے کہے: آؤمیں تم سے جوا کھیلوں تو اسے صدقہ کرنا چاہیے۔“
تشریح:
(1) ”لات“ ایک بت کا نام ہے جو صفا پہاڑی پر رکھا ہوا تھا۔ جو شخص جان بوجھ کر تعظیماً ”لات“ وغیرہ کی قسم کھاتا ہے وہ کافر ہے۔ اس کے کفر میں کسی کو اختلاف نہیں۔ وہ خارج از اسلام ہوگا۔ اسے تجدید ایمان کے لیے دوبارہ کلمہ اسلام کا اقرار کرنا ہوگا۔ اور جو شخص جہالت (عدم علم) یا بھول کر قسم کھاے تو وہ لا الہ الا اللہ کہے۔ اس کلمے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے اس نقصان کی تلافی فرما دے گا۔ (2) ”صدقہ کرنا چاہیے“ جوا قبیح چیز ہے جو انسان کو مادہ پرست‘ کنجوس‘ خود غرض اور پتھر دل بنا دیتا ہے‘ لہٰذا اس قبیح لفظ کا علاج صدقہ بتلایا گیا جو انسان کو الٰہ پرست‘ سخی‘ ہم درد اور نرم دل بناتا ہے۔ (3) صدقہ کتنا ہو؟ بعض کے نزدیک جو میسر ہو اور بعض کے نزدیک وہ رقم صدقہ کرے جس میں جوا کھیلنا چاہتا تھا۔ کم ہو یا زیادہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3784
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3784
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3806
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص لات کی قسم کھائے‘ وہ کہے: لا الہ الا اللہ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں) اور جو شخص اپنے ساتھی سے کہے: آؤمیں تم سے جوا کھیلوں تو اسے صدقہ کرنا چاہیے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”لات“ ایک بت کا نام ہے جو صفا پہاڑی پر رکھا ہوا تھا۔ جو شخص جان بوجھ کر تعظیماً ”لات“ وغیرہ کی قسم کھاتا ہے وہ کافر ہے۔ اس کے کفر میں کسی کو اختلاف نہیں۔ وہ خارج از اسلام ہوگا۔ اسے تجدید ایمان کے لیے دوبارہ کلمہ اسلام کا اقرار کرنا ہوگا۔ اور جو شخص جہالت (عدم علم) یا بھول کر قسم کھاے تو وہ لا الہ الا اللہ کہے۔ اس کلمے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے اس نقصان کی تلافی فرما دے گا۔ (2) ”صدقہ کرنا چاہیے“ جوا قبیح چیز ہے جو انسان کو مادہ پرست‘ کنجوس‘ خود غرض اور پتھر دل بنا دیتا ہے‘ لہٰذا اس قبیح لفظ کا علاج صدقہ بتلایا گیا جو انسان کو الٰہ پرست‘ سخی‘ ہم درد اور نرم دل بناتا ہے۔ (3) صدقہ کتنا ہو؟ بعض کے نزدیک جو میسر ہو اور بعض کے نزدیک وہ رقم صدقہ کرے جس میں جوا کھیلنا چاہتا تھا۔ کم ہو یا زیادہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو قسم کھائے اور کہے: لات (بت) کی قسم ، تو اسے چاہیئے کہ وہ لا الٰہ الا اللہ پڑھے، اور جو اپنے ساتھی سے کہے: آؤ تمہارے ساتھ جوا کھیلیں گے) تو اسے چاہیئے کہ صدقہ کرے.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'Whoever among you swears and says: By Al-Lat, let him say: La ilaha illallah (There is none worthy of worship except Allah). And whoever says to his companion: Come, let us gamble, then let him give in charity.