باب: جو شخص ایک چیز پر قسم کھالے‘ پھر وہ کوئی اور چیز بہتر سمجھے (تو کیا کرے؟)
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: One Who Swears An Oath And Then Sees That Something Else Is Better)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3779.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں اس زمین کی جس چیز پر بھی قسم کھالوں‘ پھر اس کے علاوہ کسی اور چیز کو بہتر دیکھوں تو میں وہ بہتر کام کروں گا۔“
تشریح:
زمین سے شاید اشارہ ہو کہ دنیوی چیزوں میں میرا یہ طریق کار ہے۔ باقی رہے دینی کام تو وہ سب کے سب بہتر ہوتے ہیں۔ انہیں چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیوی کاموں میں اگر کسی غیر بہتر چیز پر قسم کھائی گئی تو اسے چھوڑ کر بہتر کام کرلینا چاہیے‘ قسم کا کفارہ دے دیا جائے‘ البتہ اگر کسی جائز کام پر فریقین کے درمیان وعدہ یا معاہدہ طے پا گیا ہے اور آدمی نے اسے پورا کرنے کی قسم کھا لی ہے مگر بعد میں وہ دیکھتا ہے کہ فائدہ یا نفع فریق ثانی کے حق میں جارہا ہے‘ مجھے اس میں نقصان ہے‘ تو اس صورت میں وہ قسم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں فریق ثانی کا بھی حق ہے جو مجروح ہوتا ہے۔ گویا حدیث میں مذکور طریق کار ذاتی افعال میں ہوگا نہ کہ کسی دوسرے کے حق میں‘ ورنہ یہ خود غرضی ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3788
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3788
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3810
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں اس زمین کی جس چیز پر بھی قسم کھالوں‘ پھر اس کے علاوہ کسی اور چیز کو بہتر دیکھوں تو میں وہ بہتر کام کروں گا۔“
حدیث حاشیہ:
زمین سے شاید اشارہ ہو کہ دنیوی چیزوں میں میرا یہ طریق کار ہے۔ باقی رہے دینی کام تو وہ سب کے سب بہتر ہوتے ہیں۔ انہیں چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیوی کاموں میں اگر کسی غیر بہتر چیز پر قسم کھائی گئی تو اسے چھوڑ کر بہتر کام کرلینا چاہیے‘ قسم کا کفارہ دے دیا جائے‘ البتہ اگر کسی جائز کام پر فریقین کے درمیان وعدہ یا معاہدہ طے پا گیا ہے اور آدمی نے اسے پورا کرنے کی قسم کھا لی ہے مگر بعد میں وہ دیکھتا ہے کہ فائدہ یا نفع فریق ثانی کے حق میں جارہا ہے‘ مجھے اس میں نقصان ہے‘ تو اس صورت میں وہ قسم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں فریق ثانی کا بھی حق ہے جو مجروح ہوتا ہے۔ گویا حدیث میں مذکور طریق کار ذاتی افعال میں ہوگا نہ کہ کسی دوسرے کے حق میں‘ ورنہ یہ خود غرضی ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”زمین پر کوئی ایسی قسم نہیں جو میں کھاؤں پھر اس کے سوا کو اس سے بہتر سمجھوں مگر میں وہی کروں گا“ (جو بہتر ہو گا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Musa that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "There is nothing on Earth that I swear an oath upon, and I see that something else is better, but I do that which is better.