Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Expiation Before Breaking An Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3780.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے راویت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں کچھ اشعری افراد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں خاضر ہوا۔ ہم آپ سے (جہاد کے سلسلے میں) سواریاں مانگنے آئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تمہیں سواریاں نہیں دوں گا اور نہ میرے پاس سواریاں ہیں۔“ پھر ہم ٹھہرے رہے جتنی دیر اللہ نے چاہا کہ (بعد میں) آپ کے پاس کچھ اونٹ لائے گئے۔ آپ نے ہمیں تین اونٹ دینے کا حکم دیا۔ جب ہم اونٹ لے کر چل پڑے تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا: اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ان اونٹوں میں برکت نہیں فرمائے گا کیونکہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سورایاں مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھائی تھی کہ میں سواریاں نہیں دوں گا۔ (اب شاید آپ قسم بھول گئے ہیں۔ یہ سوچ کر) ہم دوبارہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ساری بات ذکر کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں سواریاں نہیں دیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر میں کسی چیز پر قسم کھا لوں ‘پھر میں اس کی بجائے کوئی اور چیز بہتر سمجھوں تو میں قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور بہتر کام کرلیتا ہوں۔“
تشریح:
(1) اشعر ایک قبیلہ تھا جس کی بنا پر حضرت ابوموسیٰ کو اشعری کہا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نبی ﷺ کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت آپ کسی بنا پر غصے کی حالت میں تھے۔ ویسے آپ کے پاس اس وقت سوریاں تھی بھی نہیں۔ (2) ”میں نے نہیں دیں“ یعنی اب اللہ تعالیٰ نے اونٹ بھیج دیے جو میں نے تم کو دیے۔ باقی رہی قسم تو اس کا جواب آگے ذکر ہے۔ (3) اس حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا ذکر ہے۔ جمہور اس کے قائل ہیں‘ البتہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے کہ جب کفارہ کا سبب ہی واقع نہیں ہوا تو کفارہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جب نیت قسم توڑنے کی ہوگئی تو بہتر ہے کفارہ پہلے دے دیا جائے تاکہ کفارہ لازم ہی نہ آئے اگرچہ بعد میں ادا کرنا بھی درست ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3789
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3789
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3811
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے راویت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں کچھ اشعری افراد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں خاضر ہوا۔ ہم آپ سے (جہاد کے سلسلے میں) سواریاں مانگنے آئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تمہیں سواریاں نہیں دوں گا اور نہ میرے پاس سواریاں ہیں۔“ پھر ہم ٹھہرے رہے جتنی دیر اللہ نے چاہا کہ (بعد میں) آپ کے پاس کچھ اونٹ لائے گئے۔ آپ نے ہمیں تین اونٹ دینے کا حکم دیا۔ جب ہم اونٹ لے کر چل پڑے تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا: اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ان اونٹوں میں برکت نہیں فرمائے گا کیونکہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سورایاں مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھائی تھی کہ میں سواریاں نہیں دوں گا۔ (اب شاید آپ قسم بھول گئے ہیں۔ یہ سوچ کر) ہم دوبارہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ساری بات ذکر کی۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں سواریاں نہیں دیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر میں کسی چیز پر قسم کھا لوں ‘پھر میں اس کی بجائے کوئی اور چیز بہتر سمجھوں تو میں قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور بہتر کام کرلیتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اشعر ایک قبیلہ تھا جس کی بنا پر حضرت ابوموسیٰ کو اشعری کہا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نبی ﷺ کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت آپ کسی بنا پر غصے کی حالت میں تھے۔ ویسے آپ کے پاس اس وقت سوریاں تھی بھی نہیں۔ (2) ”میں نے نہیں دیں“ یعنی اب اللہ تعالیٰ نے اونٹ بھیج دیے جو میں نے تم کو دیے۔ باقی رہی قسم تو اس کا جواب آگے ذکر ہے۔ (3) اس حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا ذکر ہے۔ جمہور اس کے قائل ہیں‘ البتہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے کہ جب کفارہ کا سبب ہی واقع نہیں ہوا تو کفارہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جب نیت قسم توڑنے کی ہوگئی تو بہتر ہے کفارہ پہلے دے دیا جائے تاکہ کفارہ لازم ہی نہ آئے اگرچہ بعد میں ادا کرنا بھی درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ میں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، ہم آپ سے سواریاں مانگ رہے تھے،۱؎ آپ نے فرمایا: ”قسم اللہ کی! میں تمہیں سواریاں نہیں دے سکتا، میرے پاس کوئی سواری ہے بھی نہیں جو میں تمہیں دوں“، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، اتنے میں کچھ اونٹ لائے گئے تو آپ ﷺ نے ہمارے لیے تین اونٹوں کا حکم دیا، تو جب ہم چلنے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اللہ تعالیٰ ہمیں برکت نہیں دے گا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں طلب کرنے آئے تو آپ نے قسم کھائی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے۔ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں: تو ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں سواریاں نہیں دی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، قسم اللہ کی! میں کسی بات کی قسم کھاتا ہوں، پھر میں اس کے علاوہ کو بہتر سمجھتا ہوں تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو بہتر ہوتا ہے کرتا ہوں.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سواریوں کا مطالبہ غزوہ تبوک میں شریک ہونے کے لیے کیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Musa Al-Ash'ari said: "I came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) with a group of the Ash'ari people and asked him to give us animals to ride. He said: 'By Allah, I cannot give you anything to ride and I have nothing to give you to ride.' We stayed as long as Allah willed, then some camels were brought to him. He ordered that we be given three fine-looking camels. When we left, we said to one another: 'We came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) to ask him for animals to ride, and he swore by Allah that he would not give us anything to ride, then he gave us something.'" Abu Musa (RA) said: "We came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and told him about that. He said: 'I did not give you animals to ride, rather Allah gave you them to ride. By Allah, I do not swear an oath and then see something better than it, but I offer expiation for my oath and do that which is better.