Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Whoever Swears An Oath And Says: "If Allah Wills")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3793.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ دے‘ وہ چاہے وہ قسم کو پورا کرے اور چاہے تو چھوڑ دے۔ اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔“
تشریح:
(1) انشاء اللہ کے معنیٰ ہیں: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قسم کھانے والے نے حتمی قسم نہیں کھائی۔ گویا اگر یہ کام کرسکا تو کرے گا ورنہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاہا‘ لہٰذا یہ کام نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے اس پر گناہ کیونکر آئے گا؟ البتہ وعدہ وغیرہ میں ان شاء اللہ کو وعدہ خلافی کے لیے بہانا نہیں بنایا جاسکتا بلکہ صرف تبرکاً ہی پڑھنا چاہیے ورنہ وعدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ (2) ”ان شاء اللہ“ ان الفاظ کا ظاہراً کہنا مقصود ہے۔ اگر کوئی نیت میں ”ان شاء اللہ“ کہے گا تو اس کا اعتبار نہیں کیونکہ قسم کا انعقاد ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے نیت سے نہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3834
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3793
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3733
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3793
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3802
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3802
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3824
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ دے‘ وہ چاہے وہ قسم کو پورا کرے اور چاہے تو چھوڑ دے۔ اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) انشاء اللہ کے معنیٰ ہیں: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قسم کھانے والے نے حتمی قسم نہیں کھائی۔ گویا اگر یہ کام کرسکا تو کرے گا ورنہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاہا‘ لہٰذا یہ کام نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے اس پر گناہ کیونکر آئے گا؟ البتہ وعدہ وغیرہ میں ان شاء اللہ کو وعدہ خلافی کے لیے بہانا نہیں بنایا جاسکتا بلکہ صرف تبرکاً ہی پڑھنا چاہیے ورنہ وعدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ (2) ”ان شاء اللہ“ ان الفاظ کا ظاہراً کہنا مقصود ہے۔ اگر کوئی نیت میں ”ان شاء اللہ“ کہے گا تو اس کا اعتبار نہیں کیونکہ قسم کا انعقاد ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے نیت سے نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو قسم کھائے اور ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہے تو اگر چاہے تو وہ قسم پوری کرے اور اگر چاہے تو پوری نہ کرے، وہ قسم توڑنے والا نہیں ہو گا.“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ وہ اپنی قسم میں جھوٹا نہیں ہو گا اس لیے کہ اس کی قسم اللہ کی مرضی (مشیت) پر معلق و منحصر ہو گئی، اسی لیے وہ قسم توڑنے والا نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Whoever swears an oath and says: 'If Allah wills', then if he wishes he may go ahead, and if he wishes he may not, without having broken his oath.