Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Intention In Oaths)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3794.
حضرت عمربن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی‘ چنانچہ جس شخص کی (نیت) ہجرت (کرتے وقت) اللہ اور اس کے رسول (کی رضا مندی اور حکم کی تعمیل) کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی سمجھی جائے گی ہجرت (کا مقصود) دنیا کا حصول اور کسی عورت سے نکاح وغیرہ تھا تو اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے سمجھی جائے گی جو اس کا مقصود تہیں۔“
تشریح:
یہ اصولی اور جامع حدیث ہے جس کا تعلق شرعی امور سے بھی ہے اور دنیوی امور سے بھی۔ اگر شرعی امور سے اس کا تعلق ہو تو اس کے شرعی معنیٰ مراد ہوں گے‘ یعنی خلوص لوجہ اللہ۔ اور اگر اس کا تعلق امور دنیا سے ہو تو اس کے لغوی معنیٰ مراد ہوںگے‘ یعنی قصد وارادہ۔ قسم بھی دنیوی امور سے ہے‘ لہٰذا جس نیت سے قسم کھائی جائے گی‘ وہی نیت معتبر ہوگی۔ یا قسم کا مفہوم وہی معتبر ہوگا جو قسم کھانے والے کا مقصود تھا۔ (یہ حدیث اور اس کی تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۷۵)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3835
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3794
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3734
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3794
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3803
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3803
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3825
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت عمربن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی‘ چنانچہ جس شخص کی (نیت) ہجرت (کرتے وقت) اللہ اور اس کے رسول (کی رضا مندی اور حکم کی تعمیل) کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی سمجھی جائے گی ہجرت (کا مقصود) دنیا کا حصول اور کسی عورت سے نکاح وغیرہ تھا تو اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے سمجھی جائے گی جو اس کا مقصود تہیں۔“
حدیث حاشیہ:
یہ اصولی اور جامع حدیث ہے جس کا تعلق شرعی امور سے بھی ہے اور دنیوی امور سے بھی۔ اگر شرعی امور سے اس کا تعلق ہو تو اس کے شرعی معنیٰ مراد ہوں گے‘ یعنی خلوص لوجہ اللہ۔ اور اگر اس کا تعلق امور دنیا سے ہو تو اس کے لغوی معنیٰ مراد ہوںگے‘ یعنی قصد وارادہ۔ قسم بھی دنیوی امور سے ہے‘ لہٰذا جس نیت سے قسم کھائی جائے گی‘ وہی نیت معتبر ہوگی۔ یا قسم کا مفہوم وہی معتبر ہوگا جو قسم کھانے والے کا مقصود تھا۔ (یہ حدیث اور اس کی تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۷۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور آدمی کو اسی کا ثواب ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو گی تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہو گی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی ہے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : چونکہ قسم بھی ایک عمل ہے، اس لیے حدیث «إنما الأعمال بالنية» کے مطابق قسم میں بھی نیت معتبر ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Umar bin Al-Khattab (RA) that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Actions are but by intentions, and each person will have but that which he intended. Thus, he whose emigration was for the sake of Allah and His Messenger, his emigration was for the sake of Allah and His Messenger, and he whose emigration was to achieve some worldly gain or to take some woman in marriage, his emigration was for that for which he emigrated.