باب: اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرلے تو (قسم والا کفارہ دینا ہوگا)
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Forbidding That Which Allah, The Mighty And Sublime, Has Permitted)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3795.
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ (اپنی ایک بیوی) حضرت زینب بنت جحش ؓ کے ہاں زیادہ دیر ٹھہرے تھے کیونکہ آپ وہاں سے شہد پیتے تھے۔ میں نے اور حفصہ نے آپس میں اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: بلاشبہ میں آپ سے مغافیر کی بو محسوس کررہی ہوں۔ آپ نے مغافری (گوند) کھائی ہے؟ آپ ہم میں سے کسی ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے یہ لفظ کہہ دیے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں‘ بلکہ میں نے تو زینب بنت جحش کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ دوبارہ ہرگز نہیں پیوں گا۔“ تو پھر یہ آیت اتریں: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ ”اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام قراردے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال قراردیا ہے؟“ آگے حضرت عائشہ اور حفصہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ﴾ ”اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور (اپنی غلطی سے) توبہ کرو (تو تمہیں لائق ہے)۔“ جب نبی اکرم ﷺ نے اپنی ایک بیوی سے راز کی بات کہی“ اس میں اشارہ ہے آپ کے فرمان کی طرف کہ ”میں نے تو شہد پیا ہے‘ (آئندہ نہیں پیوں گا)۔“
تشریح:
کسی حلال چیز کو اپنے لیے حرام قرار دے لینا‘ نذر اور قسم کی طرح ہے۔ حلال کو حرام کرنا بھی صحیح نہیں‘ لہٰذا اس چیز کو استعمال کرنا ہوگا اور کفارہ دینا ہوگا۔ اگرچہ ظاہراً قسم یا نذر کے الفاظ نہ ہوں۔ (تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث: ۳۴۱۰)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3836
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3795
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3735
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3795
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3804
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3804
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3826
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ (اپنی ایک بیوی) حضرت زینب بنت جحش ؓ کے ہاں زیادہ دیر ٹھہرے تھے کیونکہ آپ وہاں سے شہد پیتے تھے۔ میں نے اور حفصہ نے آپس میں اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: بلاشبہ میں آپ سے مغافیر کی بو محسوس کررہی ہوں۔ آپ نے مغافری (گوند) کھائی ہے؟ آپ ہم میں سے کسی ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے یہ لفظ کہہ دیے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں‘ بلکہ میں نے تو زینب بنت جحش کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ دوبارہ ہرگز نہیں پیوں گا۔“ تو پھر یہ آیت اتریں: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ ”اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام قراردے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال قراردیا ہے؟“ آگے حضرت عائشہ اور حفصہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ﴾ ”اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور (اپنی غلطی سے) توبہ کرو (تو تمہیں لائق ہے)۔“ جب نبی اکرم ﷺ نے اپنی ایک بیوی سے راز کی بات کہی“ اس میں اشارہ ہے آپ کے فرمان کی طرف کہ ”میں نے تو شہد پیا ہے‘ (آئندہ نہیں پیوں گا)۔“
حدیث حاشیہ:
کسی حلال چیز کو اپنے لیے حرام قرار دے لینا‘ نذر اور قسم کی طرح ہے۔ حلال کو حرام کرنا بھی صحیح نہیں‘ لہٰذا اس چیز کو استعمال کرنا ہوگا اور کفارہ دینا ہوگا۔ اگرچہ ظاہراً قسم یا نذر کے الفاظ نہ ہوں۔ (تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث: ۳۴۱۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین زینب بنت جحش ؓ کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پیتے تھے، میں نے اور حفصہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم ﷺ آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ (کے منہ) سے مغافیر ۱؎ کی بو محسوس ہو رہی ہے، آپ نے مغافیر کھائی ہے۔ آپ ان دونوں میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے آپ سے یہی کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور آئندہ اسے نہیں پیوں گا۔“ تو آیت کریمہ «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ» سے (آیت کا سیاق یہ ہے کہ) ”اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں“ (التحریم:۱) «إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ» (آیت کا سیاق یہ ہے کہ) ”(اے نبی کی بیویو!) اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہتر ہے)“ (التحریم : ۴) تک نازل ہوئی، اس سے عائشہ اور حفصہ ؓ مراد ہیں اور آپ ﷺ کے قول: میں نے تو شہد پیا ہے (مگر اب نہیں پیوں گا) کی وجہ سے آیت کریمہ «وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا» ”جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے چپکے سے ایک بات کہی“ (التحریم: ۳) نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ubaid bin 'Umair said: I heard 'Aishah (RA) say: "The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to stay with Zainab bint Jahsh and drink honey at her house. Hafsah and I agreed that if the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to either of us, she would say: 'I detect the smell of Maghafir (a nasty-smelling gum) on you. Have you eaten Maghafir?' He went to one of them and she said that to him. He said: 'No, rather I drank honey at the house of Zainab bint Jahsh, but I will never do it again.' Then the following was revealed: 'O Prophet! Why do you forbid (for yourself) that which Allah has allowed to you' up to: 'If you two turn in repentance to Allah' -'Aishah and Hafsah- 'And (remember) when the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) disclosed a matter in confidence to one of his wives.' refers to him saying: 'No, rather I drank honey.