باب: ولی قصدو ارادے کے بغیر قسم یا جھوٹ کے الفاظ زبان سے نکل جائیں تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Swearing Oaths And Lying When One Does Not Believe In What He Is Swearing About)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3797.
حضرت قیس بن ابی غرزہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمیں (تاجروں کو) دلال کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس (بازار میں) تشریف لائے۔ ہم خرید و فروخت کررہے تھے۔ آپ نے ہمارے نام سے بہتر نام ہمارے لے مقرر فرمایا۔ آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! بیچتے وقت (بسا اوقات بلا قصد) قسم اور جھوٹ صادر ہوجاتے ہیں‘ لہٰذا تم فروخت کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کیا کرو۔“
تشریح:
(1) سماسرہ، سمسار کی جمع ہے۔ یہ عجمی لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی چیزیں اجرت لے کر بیچتے ہیں۔ عجمی لوگ تجارت کا کام زیادہ کرتے تھے‘ لہٰذا یہ لفظ سب تاجروں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ آپ نے اس لفظ کو پسند نہیں فرمایا اور اسے تجار سے بدل دیا۔ (2) اس حدیث کا یہ مقصود نہیں کہ تاجر لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر اور جھوٹ بول کر تجارت کرتے رہیں اور بعد میں کچھ صدقہ کردیا کریں۔ اللہ خیرسلا‘ بلکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مفہوم متعین فرمایا کہ یہاں قسم اور جھوٹ سے مراد بلا ارادہ قسم اور جھوٹ کے الفاظ صادر ہونا ہے‘ اس لیے صدقے کا حکم دیا ورنہ جھوٹی قسم کے ذریعے سے سامان بیچنا بہت بڑا گناہ ہے جو حقوق العباد کی ذیل میں آتا ہے۔ صدقہ بھی اسے نہیں مٹا سکتا لیکن عموماً صدقہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (3) مخاطب کو اچھے نام سے پکارنا مستحب ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3838
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3797
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3737
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3797
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3806
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3806
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3828
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت قیس بن ابی غرزہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمیں (تاجروں کو) دلال کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس (بازار میں) تشریف لائے۔ ہم خرید و فروخت کررہے تھے۔ آپ نے ہمارے نام سے بہتر نام ہمارے لے مقرر فرمایا۔ آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! بیچتے وقت (بسا اوقات بلا قصد) قسم اور جھوٹ صادر ہوجاتے ہیں‘ لہٰذا تم فروخت کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) سماسرہ، سمسار کی جمع ہے۔ یہ عجمی لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی چیزیں اجرت لے کر بیچتے ہیں۔ عجمی لوگ تجارت کا کام زیادہ کرتے تھے‘ لہٰذا یہ لفظ سب تاجروں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ آپ نے اس لفظ کو پسند نہیں فرمایا اور اسے تجار سے بدل دیا۔ (2) اس حدیث کا یہ مقصود نہیں کہ تاجر لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر اور جھوٹ بول کر تجارت کرتے رہیں اور بعد میں کچھ صدقہ کردیا کریں۔ اللہ خیرسلا‘ بلکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مفہوم متعین فرمایا کہ یہاں قسم اور جھوٹ سے مراد بلا ارادہ قسم اور جھوٹ کے الفاظ صادر ہونا ہے‘ اس لیے صدقے کا حکم دیا ورنہ جھوٹی قسم کے ذریعے سے سامان بیچنا بہت بڑا گناہ ہے جو حقوق العباد کی ذیل میں آتا ہے۔ صدقہ بھی اسے نہیں مٹا سکتا لیکن عموماً صدقہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (3) مخاطب کو اچھے نام سے پکارنا مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن ابی غرزہ غفاری ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں «سماسر» (دلال) کہا جاتا تھا، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم خرید و فروخت کر رہے تھے تو آپ نے ہمیں ہمارے نام سے بہتر ایک نام دیا، آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں قسم اور جھوٹ۱؎ بھی شامل ہو جاتی ہیں تو تم اپنی خرید و فروخت میں صدقہ ملا لیا کرو.“
حدیث حاشیہ:
۱؎؎ : یعنی خرید و فروخت میں بعض دفعہ بغیر ارادے اور قصد کے بعض ایسی باتیں زبان پر آ جاتی ہیں جو خلاف واقع ہوتی ہیں تو کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو تاکہ وہ ایسی چیزوں کا کفارہ بن جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qais bin Abi Gharazah said: "At the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) we used to be called Samasir (brokers). The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) came to us when we were selling and called us by a name that was better than that. He said: 'O merchants (Tujjar), this selling involves lies and (false) oaths, so mix some charity with it.