Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Idle Talk And Lies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3800.
حضرت قیس بن ابی غرزہ ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: ہم مدینہ منورہ میں غلے کی خرید وفروخت کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو سمسار کہا کرتے تھے۔ لوگ بھی ہمیں یہی کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں ہمارے اور لوگوں کے رکھے ہوئے نام سے بہترین نام دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! تمہارے سودوں میں (بلا قصد وارادہ) جھوٹ اور قسموں کی ملاوٹ ہوتی ہے‘ لہٰذا تم اپنے سودوں کے ساتھ ساتھ صدقے کی بھی ملاوٹ کیا کرو۔“
تشریح:
امام صاحب رحمہ اللہ نے اس باب سے اشارہ فرمایا کہ تجارت کے علاوہ بھی جس کام (مثلاً: کھیل وغیرہ) میں لغو‘ شوروغل‘ بلاوجہ قسموں وغیرہ کا امکان ہو تو وہاں بھی صدقہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح جس شخص سے بلا قصد قسم صادر ہوجاتی ہو یا اسے فالتو اور لایعنی گفتگو کی عادت ہو‘ اسے بھی صدقہ کرتے رہنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3841
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3800
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3740
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3800
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3809
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3809
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3831
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت قیس بن ابی غرزہ ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: ہم مدینہ منورہ میں غلے کی خرید وفروخت کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو سمسار کہا کرتے تھے۔ لوگ بھی ہمیں یہی کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں ہمارے اور لوگوں کے رکھے ہوئے نام سے بہترین نام دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! تمہارے سودوں میں (بلا قصد وارادہ) جھوٹ اور قسموں کی ملاوٹ ہوتی ہے‘ لہٰذا تم اپنے سودوں کے ساتھ ساتھ صدقے کی بھی ملاوٹ کیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
امام صاحب رحمہ اللہ نے اس باب سے اشارہ فرمایا کہ تجارت کے علاوہ بھی جس کام (مثلاً: کھیل وغیرہ) میں لغو‘ شوروغل‘ بلاوجہ قسموں وغیرہ کا امکان ہو تو وہاں بھی صدقہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح جس شخص سے بلا قصد قسم صادر ہوجاتی ہو یا اسے فالتو اور لایعنی گفتگو کی عادت ہو‘ اسے بھی صدقہ کرتے رہنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن ابی غرزہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینے میں وسق بیچتے اور خریدتے تھے، اور ہم اپنے کو «سماسرہ» (دلال) کہتے تھے، لوگ بھی ہمیں دلال کہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکل کر آئے تو آپ نے ہمیں ایک ایسا نام دیا جو اس نام سے بہتر تھا جو ہم اپنے لیے کہتے تھے یا لوگ ہمیں اس نام سے پکارتے تھے، آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! تمہاری خرید و فروخت میں (بلا قصد و ارادے کے) قسم اور جھوٹ کی باتیں بھی آ جاتی ہیں تو تم اس میں صدقہ ملا لیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qais bin Abi Gharazah said: "In Al-Madinah we used to buy and sell Wasqs (of goods), and we used to call ourselves Samasir (brokers), and the people used to call us like that. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) came out to us one day, and called us by a name that was better than that which we called ourselves and which the people called us. He said: 'O Tujjar (traders), your selling involves (false) oaths and lies, so mix some charity with it.