Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: The Prohibition Against Vows)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3801.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا: ”اس کا کوئی فائدہ نہیں‘ البتہ اس کے ساتھ بخیل آدمی سے کچھ مال نکل آتا ہے۔“
تشریح:
جائز نذر ماننا گناہ کبیرہ اور مصییت تو نہیں مگر مستحب چیز بھی نہیں کیونکہ اس میں صدقے اور نیکی کو مشروط کیا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر میں صحت یاب ہوگیا تو پھر نیکی یا صدقہ کروں گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے شرطیں لگانا اچھی بات نہیں لیکن نفل نیکی یا صدقے کے لیے شرط لگانا منع بھی نہیں‘ لہٰذا اسے مستحسن قرار نہیں دیا گیا مگر پورا کرنا بھی ضروری قراردیا گیا ہے۔ نذر کی بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ازخود بغیر کسی شرط کے صدقہ یا نیکی کرکے اپنی حاجت کے لیے دعا مانگے کیونکہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے مگر نذر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سخی آدمی صدقہ کرنے میں جلدی کرتا ہے اور بغیر عوض کے صدقہ کرتا ہے جبکہ بخیل شخص ویسے صدقہ نہیں کرتا بلکہ کسی چیز کے عوض میں صدقہ کرتا ہے‘ اس لیے نذر مان کر اسے چار و ناچار صدقہ کرنا پڑتا ہے۔ اشارتاً معلوم ہوا کہ نذر ماننا کنجوس اور بخیل شخص کا کام ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ نذر ماننے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے بعد میں پوری نہ ہوسکے۔ گویا دراصل یہ نذر پوری کرنے کی تاکید ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3842
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3801
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3741
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3801
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3810
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3810
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3832
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا: ”اس کا کوئی فائدہ نہیں‘ البتہ اس کے ساتھ بخیل آدمی سے کچھ مال نکل آتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
جائز نذر ماننا گناہ کبیرہ اور مصییت تو نہیں مگر مستحب چیز بھی نہیں کیونکہ اس میں صدقے اور نیکی کو مشروط کیا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر میں صحت یاب ہوگیا تو پھر نیکی یا صدقہ کروں گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے شرطیں لگانا اچھی بات نہیں لیکن نفل نیکی یا صدقے کے لیے شرط لگانا منع بھی نہیں‘ لہٰذا اسے مستحسن قرار نہیں دیا گیا مگر پورا کرنا بھی ضروری قراردیا گیا ہے۔ نذر کی بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ازخود بغیر کسی شرط کے صدقہ یا نیکی کرکے اپنی حاجت کے لیے دعا مانگے کیونکہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل سکتی ہے مگر نذر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سخی آدمی صدقہ کرنے میں جلدی کرتا ہے اور بغیر عوض کے صدقہ کرتا ہے جبکہ بخیل شخص ویسے صدقہ نہیں کرتا بلکہ کسی چیز کے عوض میں صدقہ کرتا ہے‘ اس لیے نذر مان کر اسے چار و ناچار صدقہ کرنا پڑتا ہے۔ اشارتاً معلوم ہوا کہ نذر ماننا کنجوس اور بخیل شخص کا کام ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ نذر ماننے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے بعد میں پوری نہ ہوسکے۔ گویا دراصل یہ نذر پوری کرنے کی تاکید ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر (ماننے) سے منع کیا اور فرمایا: ”اس سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوتی، البتہ اس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اس کی نذر سے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ نذر ماننے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیصلہ ہو چکا ہے اس میں اس کی نذر سے ذرہ برابر تبدیلی نہیں آ سکتی، اس لیے یہ سوچ کر نذر نہ مانی جائے کہ اس سے مقدر میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin 'Umar that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) forbade vows and said: "They do not bring any good; they are just a means of taking wealth from the miserly.