باب: جس شخص نے کوئی نذر اپنے آپ پر واجب کرلی لیکن وہ اسے پورا کرنے سے عاجز ہے تو اس پر کیا واجب ہوگا؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: What Is The Requirement Upon One Who Made A Vow That Something Would Be Obligatory For Him, Then He)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3854.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایسے شخص پر سے ہوا جسے اس کے دو بیٹے پکڑ کر سہارے سے چلا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کیا ہوا؟“ کہا گیا: اس نے کعبہ تک پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں کہ یہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالے۔“ چنانچہ آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔
تشریح:
”حکم دیا“ کیونکہ وہ چلنے سے عاجز تھا۔ جو چل سکے‘ وہ چلے عاجز ہوجائے تو سوار ہوجائے اور کفارہ دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3863
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3863
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3885
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایسے شخص پر سے ہوا جسے اس کے دو بیٹے پکڑ کر سہارے سے چلا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کیا ہوا؟“ کہا گیا: اس نے کعبہ تک پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں کہ یہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالے۔“ چنانچہ آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
”حکم دیا“ کیونکہ وہ چلنے سے عاجز تھا۔ جو چل سکے‘ وہ چلے عاجز ہوجائے تو سوار ہوجائے اور کفارہ دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ایسے شخص کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے دو بیٹوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا لیے چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”اس کا کیا معاملہ ہے؟“ عرض کیا گیا: اس نے کعبہ پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: ”اس طرح اپنے آپ کو تکلیف دینے سے اللہ تعالیٰ اس کو کوئی ثواب نہیں دے گا، پھر آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Anas bin Malik (RA) said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) came to a man who was being supported by two others and said: 'What is the matter with him?' It was said: 'He vowed to walk to the Ka'bah.' He said: 'Allah does not benefit from his torturing himself.' And he told him to ride.