باب: شروط کی تیسری قسم بٹائی پر زمین دینا اور ا س کی دستاویزات
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: The Third Of The Conditions, In It Is Sharecropping (Muzara'ah) And Contracting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3860.
حضرت حماد اور حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے مکہ تک کے لیے سواری اتنے کرایہ پر لیتا ہوں‘ اگر پورا مہینہ یا اتنی مدت (جس کی وہ صراحت کرے) سفر میں رہا تو تجھے اتنے روپے مزید دوں گا۔ تو ان دونوں بزرگوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ البتہ انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ وہ کہے: میں تجھ سے یہ سواری اتنے کرایہ پر لیتا ہوں اور اگر میں ایک ماہ سے زیادہ سفر میں رہا تو تجھے اتنا کرایہ کم دوں گا۔
تشریح:
مقصود یہ ہے کہ سواری تیز چلی اور وقت کم لگا تو تجھے زیادہ رقم دوں گا اور اگر سواری تیز نہ چلی اور وقت زیادہ لگا تو میں تجھے کم کرایہ دوں گا۔ پہلی صورت اس لیے جائز ہے کہ اس میں انعام دینے کی صورت ہے۔ اور ظاہر ہے انعام دینا تو جائز ہے۔ دوسری صورت اس لیے منع ہے کہ اس میں سواری والے پر ظلم ہے۔ ایک تو وقت زیادہ لگا اور دوسرا کرایہ بھی کم۔ اور ظلم جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3869
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3869
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3891
تمہید کتاب
تمہید باب
امام نسائی نے قسم اور نذر کو مشروط میں داخل کیا ہے کیونکہ عموماً ان میں کوئی نہ کوئی شرط ہوتی ہے۔ بٹائی پر زمین دینے میں بھی شرطیں لگائی جاتی ہیں‘ اس لیے بٹائی کو بھی مشروط میں داخل کیا ہے اور قسم ونذر کے ذکر کے بعد تیسرے نمبر پر اسے ذکر کیا ہے۔ چونکہ شروط کی بنا پر معاملہ طویل اور پیچیدہ ہوجاتا ہے‘ اس لیے ایسے معاملات کی دستاویزات کے نمونے بھی پیش فرمادیے ہیں۔ جزاه الله أحسن الجزاء
بٹائی پر زمین دینا مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک یہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ظالمانہ شرط نہ لگائی جائے‘ خصوصاً ایسی شرط جس سے مزارع کو نقصان ہو کیونکہ عموماً وہ غریب ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ اس بے چارے کی سال بھر کی محنت ضائع نہ چلی جائے۔ امام ابوحنیفہ بٹائی کو درست نہیں سمجھتے۔ شاید اس کے لیے کہ اس میں عامل کی اجرت مجہول ہوتی ہے اور الگ نہیں ہوگی۔ حالانکہ مضاربت (کہ ایک شخص کی رقم سے دوسرا شخص تجارت کرے اور منافع دونوں تقسیم کرلیں) میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے اور مضاربت سب کے نزدیک جائز ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابئہ کرامسے بٹائی پر زمین دینا قطعاً ثابت ہے۔ جو چیز عام رائج ہو اور اس میں عموماً لوگوں کا نفع ہو‘ تنازعات قائم نہ ہوتے ہوں‘ شریعت نے ان کو جائز رکھا۔ اگرچہ ان میں تھوڑی بہت کوئی خرابی بھی ہو کیونکہ مقصد تو عوام الناس کی بھلائی ہے۔ ایسے مسائل میں مساحت سے کام لیا جاتا ہے‘مثلاً: بلی کے جھوٹے کا استعمال‘ کتے کا شکار وغیرہ۔ ہاں‘ اگر کسی رواج سے ظلم راہ پاتا ہو یا معاشرے میں مفاسد پیدا ہوتے ہوں تو اسے ممنوع قراردیا جاسکتا ہے۔
حضرت حماد اور حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے مکہ تک کے لیے سواری اتنے کرایہ پر لیتا ہوں‘ اگر پورا مہینہ یا اتنی مدت (جس کی وہ صراحت کرے) سفر میں رہا تو تجھے اتنے روپے مزید دوں گا۔ تو ان دونوں بزرگوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ البتہ انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ وہ کہے: میں تجھ سے یہ سواری اتنے کرایہ پر لیتا ہوں اور اگر میں ایک ماہ سے زیادہ سفر میں رہا تو تجھے اتنا کرایہ کم دوں گا۔
حدیث حاشیہ:
مقصود یہ ہے کہ سواری تیز چلی اور وقت کم لگا تو تجھے زیادہ رقم دوں گا اور اگر سواری تیز نہ چلی اور وقت زیادہ لگا تو میں تجھے کم کرایہ دوں گا۔ پہلی صورت اس لیے جائز ہے کہ اس میں انعام دینے کی صورت ہے۔ اور ظاہر ہے انعام دینا تو جائز ہے۔ دوسری صورت اس لیے منع ہے کہ اس میں سواری والے پر ظلم ہے۔ ایک تو وقت زیادہ لگا اور دوسرا کرایہ بھی کم۔ اور ظلم جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا: میں تجھ سے مکے تک کے لیے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ- اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کر دی- چلا تو تیرے لیے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہو گا۔ تو اس (صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا۱؎ ، تو میں تمہارے کرائے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا.۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا۔ ۲؎ : متعین مسافت (دوری) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کر لینے پر زیادہ اجرت بطور انعام و اکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Hammad and Qatadah, concerning a man who said to another man: "I will lease (something) from you until I reach Makkah for such and such a payment, and if I travel for a month or such and such -something that he named- I will give you such and such in addition." They did not see anything wrong with that, but they did not like it if he said: "If I travel for more than a month I will deduct such and such from your lease.