باب: شروط کی تیسری قسم بٹائی پر زمین دینا اور ا س کی دستاویزات
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: The Third Of The Conditions, In It Is Sharecropping (Muzara'ah) And Contracting)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3861.
حضرت ابن جریح نے کہا: میں نے حضرت عطاء سے پوچھا: میں ایک غلام کو ایک سال کے لیے صرف خوراک کی شرط پر اور ایک سال کے لیے اتنی (معین) رقم پر نوکر رکھتا ہوں (کیا یہ جائز ہے؟) انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں‘ اور نوکر رکھتے وقت جو شرط لگالے‘ وہ درست ہے۔ (میں نے کہا:) اگر میں اسے نوکر رکھوں جبکہ سال کا کچھ حصہ گزر چکا ہو؟ وہ فرمانے لگے: تو گزشتہ دنوں کا حساب نہیں کرے گا۔
تشریح:
مندرجہ بالا روایات ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوکر کی اجرت معلوم اور معین ہونی چاہیے یا تو نقد‘ یعنی روپے پیسے کی صورت میں‘ یا خوراک وغیرہ کی صورت میں‘ نیز کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو نوکر کے لیے نقصان دہ ہو۔ مزارعت‘ یعنی بٹائی میں بھی یہی صورت ہے کہ اگر مزارع کی اجرت معین ہوجائے‘ مثلاً: تجھے پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ ملے گا اور کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو مزارع کے لیے نقصان دہ ہو تو مزارعت (بٹائی) درست ہوگی۔ ہاں اگر اجرت نہ سمجھا جائے۔ اس طرح تو خوراک والی اجرت بھی مجہول ہوگی کیونکہ کسی کی خوراک کم ہوتی ہے کسی کی زیادہ۔ ایک ہی شخص کبھی کم کھاتا ہے کبھی زیادہ۔ اس کے باوجود یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3870
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3870
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3892
تمہید کتاب
تمہید باب
امام نسائی نے قسم اور نذر کو مشروط میں داخل کیا ہے کیونکہ عموماً ان میں کوئی نہ کوئی شرط ہوتی ہے۔ بٹائی پر زمین دینے میں بھی شرطیں لگائی جاتی ہیں‘ اس لیے بٹائی کو بھی مشروط میں داخل کیا ہے اور قسم ونذر کے ذکر کے بعد تیسرے نمبر پر اسے ذکر کیا ہے۔ چونکہ شروط کی بنا پر معاملہ طویل اور پیچیدہ ہوجاتا ہے‘ اس لیے ایسے معاملات کی دستاویزات کے نمونے بھی پیش فرمادیے ہیں۔ جزاه الله أحسن الجزاء
بٹائی پر زمین دینا مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک یہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ظالمانہ شرط نہ لگائی جائے‘ خصوصاً ایسی شرط جس سے مزارع کو نقصان ہو کیونکہ عموماً وہ غریب ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ اس بے چارے کی سال بھر کی محنت ضائع نہ چلی جائے۔ امام ابوحنیفہ بٹائی کو درست نہیں سمجھتے۔ شاید اس کے لیے کہ اس میں عامل کی اجرت مجہول ہوتی ہے اور الگ نہیں ہوگی۔ حالانکہ مضاربت (کہ ایک شخص کی رقم سے دوسرا شخص تجارت کرے اور منافع دونوں تقسیم کرلیں) میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے اور مضاربت سب کے نزدیک جائز ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابئہ کرامسے بٹائی پر زمین دینا قطعاً ثابت ہے۔ جو چیز عام رائج ہو اور اس میں عموماً لوگوں کا نفع ہو‘ تنازعات قائم نہ ہوتے ہوں‘ شریعت نے ان کو جائز رکھا۔ اگرچہ ان میں تھوڑی بہت کوئی خرابی بھی ہو کیونکہ مقصد تو عوام الناس کی بھلائی ہے۔ ایسے مسائل میں مساحت سے کام لیا جاتا ہے‘مثلاً: بلی کے جھوٹے کا استعمال‘ کتے کا شکار وغیرہ۔ ہاں‘ اگر کسی رواج سے ظلم راہ پاتا ہو یا معاشرے میں مفاسد پیدا ہوتے ہوں تو اسے ممنوع قراردیا جاسکتا ہے۔
حضرت ابن جریح نے کہا: میں نے حضرت عطاء سے پوچھا: میں ایک غلام کو ایک سال کے لیے صرف خوراک کی شرط پر اور ایک سال کے لیے اتنی (معین) رقم پر نوکر رکھتا ہوں (کیا یہ جائز ہے؟) انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں‘ اور نوکر رکھتے وقت جو شرط لگالے‘ وہ درست ہے۔ (میں نے کہا:) اگر میں اسے نوکر رکھوں جبکہ سال کا کچھ حصہ گزر چکا ہو؟ وہ فرمانے لگے: تو گزشتہ دنوں کا حساب نہیں کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
مندرجہ بالا روایات ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوکر کی اجرت معلوم اور معین ہونی چاہیے یا تو نقد‘ یعنی روپے پیسے کی صورت میں‘ یا خوراک وغیرہ کی صورت میں‘ نیز کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو نوکر کے لیے نقصان دہ ہو۔ مزارعت‘ یعنی بٹائی میں بھی یہی صورت ہے کہ اگر مزارع کی اجرت معین ہوجائے‘ مثلاً: تجھے پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ ملے گا اور کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو مزارع کے لیے نقصان دہ ہو تو مزارعت (بٹائی) درست ہوگی۔ ہاں اگر اجرت نہ سمجھا جائے۔ اس طرح تو خوراک والی اجرت بھی مجہول ہوگی کیونکہ کسی کی خوراک کم ہوتی ہے کسی کی زیادہ۔ ایک ہی شخص کبھی کم کھاتا ہے کبھی زیادہ۔ اس کے باوجود یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن جریج کہتے ہںي کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گزرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn Juraij said: "I said to 'Ata': 'What if I hire a slave for a year in return for his food, and for another year, in return for such and such?' He said: 'There is nothing wrong with that, and you may stipulate your conditions of hiring even for a few days.' 'How about if I make a deal to hire him when part of the year has passed?' He said: 'Do not hold me to account for what has passed.