باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3862.
"حضرت اسید بن ظہیر ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنی قوم بنوحارثہ کی طرف گیا اور انہیں کہا: اے بنوحارثہ! تم پر ایک نئی مصیبت نازل ہوگئی ہے۔ وہ کہنے لگے: وہ کیا؟ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے روک دیا ہے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم معین غلے کے عوض بٹائی دے سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: ہم معین توڑی کے عوض زمین پر کرایہ دیتے تھے؟ آپ نے نالوں کے قریب اگنے والی فصل کے عوض زمین بٹائی پر دیتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔ خود کا گوشت کردیا اپنے (دینی) بھائی کو بطور عطیہ (کچھ مدت کے لیے) دے دو۔“ حضرت مجاہد نے حضرت رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے۔“
تشریح:
(1) رافع بن اسید نے اسید بن ظہیرکا واقعہ بنایا ہے جبکہ مجاہد نے اسے اسید بن ظہیر کے واسطے سے رافع بن خدیج سے بیان کیا ہے‘ یعنی انہوں نے رافع بن خدیج کا واقعہ بنایا ہے۔ (2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم دیگر روایات کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ مالک اپنی زمین جیسے چاہے‘ بٹائی یا ٹھیکے پر دے سکتا ہے۔ شریعت کے اصول اسی بات کی تائید کرتے ہیں مگر چند شرائط ہیں کہ مزارع پر ظلم نہ ہو اور معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہوتی ہو۔ نبی ﷺ کی تشریف آوری کے وقت مدینہ منورہ کے لوگ ظالمانہ شرائط پر مزارعت کرتے تھے‘ مثلاً: اچھی زمین کی پیداوار اپنے لیے اور ناقص زمین کی پیداوار مزارع کے لیے۔ یا اس سے معین فصل (گندم یا جو وغیرہ کی معین مقدار) وصول کرلیتے تھے‘ اسے کچھ بچے یا نہ بچے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے مزارعت ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے ایسی مزارعت سے منع فرمایا ہے۔ یا بڑے جاگیرداروں کو منع فرمایا جن کے پاس فالتو زمینیں تھیں حتیٰ کہ وہ انہیں آباد نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے انہیں رغبت دلائی کہ تم زائد از ضرورت زمینیں اپنے مسلمان غریب بھائیوں کو ایک دو سال کے لیے دے دیا کرو ان سے پیداوار حاصل کرلیں اور اپنا گزارا کرلیں۔ تمہارا گزارا تو بخوبی ہورہا ہے۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی جس کا حکومت کو اختیار ہوتا ہے‘ نیز یہ سب کے لیے نہیں تھی بلکہ صرف بڑے بڑے جاگیرداروں کے لیے تھی۔ خصوصاً جبکہ اس دور میں مدینہ منورہ میں غریب مہاجرین بکثرت تھے۔ اب بھی اگر حکومت ضرورت محسوس کرے تو بڑے جاگیرداروں پر پابندی لگا سکتی ہے کہ وہ اتنی زمین اپنے پاس رکھیں جسے وہ خود بخوبی کاشت کرسکیں۔ باقی زمین غریب مزارعین میں تقسیم کردیں یا حکومت خود یہ کام کرے خصوصاً جبکہ یہ جاگیریں بھی حکومت وقت کی خوشامد اور ناجائز حمایت کرکے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر ایک حکومت کسی کو جاگیر دے سکتی ہے تو بعد میں آنے والی حکومت ان جاگیرداروں کو عوام الناس کے مفاد میں ختم بھی کرسکتی ہے اور محدود بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو کہ صحیح معنیٰ ہیں ایک مجتہد خلیفہ تھے‘ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اور جہاں ایسے مفاسد نہ ہوں‘ وہاں بٹائی یا ٹھیکے پر زمین دینا صحیح ہے۔ خیبر کا علاقہ جو آپ کے قبضے میں آگیا تھا‘ یہودیوں کو بٹائی پر دیا گیا۔ زمیندار صحابہ وتابعین اپنی زمینیں بٹائی وغیرہ پر دیتے تھے‘ لہٰذا یہ عمل صحیح ہے۔ بہر حال آپ کا منع فرمایا تو زمینداروں کی ظالمانہ شرائط لگانے کی بنا پر تھا یا انتظامی طور پر وقتی حکم یا مصلحت عامہ یا فقراء کی مواخاۃ کے پیش نظر تھا۔ یہ انتہائی مناسب تطبیق ہے جس سے سب روایات پر عمل ممکن ہے۔ واللہ أعلم۔
"حضرت اسید بن ظہیر ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنی قوم بنوحارثہ کی طرف گیا اور انہیں کہا: اے بنوحارثہ! تم پر ایک نئی مصیبت نازل ہوگئی ہے۔ وہ کہنے لگے: وہ کیا؟ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے روک دیا ہے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم معین غلے کے عوض بٹائی دے سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: ہم معین توڑی کے عوض زمین پر کرایہ دیتے تھے؟ آپ نے نالوں کے قریب اگنے والی فصل کے عوض زمین بٹائی پر دیتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔ خود کا گوشت کردیا اپنے (دینی) بھائی کو بطور عطیہ (کچھ مدت کے لیے) دے دو۔“ حضرت مجاہد نے حضرت رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رافع بن اسید نے اسید بن ظہیرکا واقعہ بنایا ہے جبکہ مجاہد نے اسے اسید بن ظہیر کے واسطے سے رافع بن خدیج سے بیان کیا ہے‘ یعنی انہوں نے رافع بن خدیج کا واقعہ بنایا ہے۔ (2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم دیگر روایات کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ مالک اپنی زمین جیسے چاہے‘ بٹائی یا ٹھیکے پر دے سکتا ہے۔ شریعت کے اصول اسی بات کی تائید کرتے ہیں مگر چند شرائط ہیں کہ مزارع پر ظلم نہ ہو اور معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہوتی ہو۔ نبی ﷺ کی تشریف آوری کے وقت مدینہ منورہ کے لوگ ظالمانہ شرائط پر مزارعت کرتے تھے‘ مثلاً: اچھی زمین کی پیداوار اپنے لیے اور ناقص زمین کی پیداوار مزارع کے لیے۔ یا اس سے معین فصل (گندم یا جو وغیرہ کی معین مقدار) وصول کرلیتے تھے‘ اسے کچھ بچے یا نہ بچے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے مزارعت ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے ایسی مزارعت سے منع فرمایا ہے۔ یا بڑے جاگیرداروں کو منع فرمایا جن کے پاس فالتو زمینیں تھیں حتیٰ کہ وہ انہیں آباد نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے انہیں رغبت دلائی کہ تم زائد از ضرورت زمینیں اپنے مسلمان غریب بھائیوں کو ایک دو سال کے لیے دے دیا کرو ان سے پیداوار حاصل کرلیں اور اپنا گزارا کرلیں۔ تمہارا گزارا تو بخوبی ہورہا ہے۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی جس کا حکومت کو اختیار ہوتا ہے‘ نیز یہ سب کے لیے نہیں تھی بلکہ صرف بڑے بڑے جاگیرداروں کے لیے تھی۔ خصوصاً جبکہ اس دور میں مدینہ منورہ میں غریب مہاجرین بکثرت تھے۔ اب بھی اگر حکومت ضرورت محسوس کرے تو بڑے جاگیرداروں پر پابندی لگا سکتی ہے کہ وہ اتنی زمین اپنے پاس رکھیں جسے وہ خود بخوبی کاشت کرسکیں۔ باقی زمین غریب مزارعین میں تقسیم کردیں یا حکومت خود یہ کام کرے خصوصاً جبکہ یہ جاگیریں بھی حکومت وقت کی خوشامد اور ناجائز حمایت کرکے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر ایک حکومت کسی کو جاگیر دے سکتی ہے تو بعد میں آنے والی حکومت ان جاگیرداروں کو عوام الناس کے مفاد میں ختم بھی کرسکتی ہے اور محدود بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو کہ صحیح معنیٰ ہیں ایک مجتہد خلیفہ تھے‘ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اور جہاں ایسے مفاسد نہ ہوں‘ وہاں بٹائی یا ٹھیکے پر زمین دینا صحیح ہے۔ خیبر کا علاقہ جو آپ کے قبضے میں آگیا تھا‘ یہودیوں کو بٹائی پر دیا گیا۔ زمیندار صحابہ وتابعین اپنی زمینیں بٹائی وغیرہ پر دیتے تھے‘ لہٰذا یہ عمل صحیح ہے۔ بہر حال آپ کا منع فرمایا تو زمینداروں کی ظالمانہ شرائط لگانے کی بنا پر تھا یا انتظامی طور پر وقتی حکم یا مصلحت عامہ یا فقراء کی مواخاۃ کے پیش نظر تھا۔ یہ انتہائی مناسب تطبیق ہے جس سے سب روایات پر عمل ممکن ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسید بن ظہیر ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرائے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، وہ کہتے ہیں: حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، پھر کہا: ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیاریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو۔ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہرحال حدیث صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Usaid bin Zuhair that he went out to his people, Banu Harithah, and said: "O Banu Harithah, a calamity has befallen you." They said: "What is it?" He said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) has forbidden leasing land." We said: "O Messenger of Allah, what if we lease it in return for some of the grain?" He said, "No." He said: "We used to lease it in return for straw." He said: "No." "We used to lease it in return for what is planted on the banks of a stream that is used for irrigation." He said: "No. Cultivate it (yourself) or give it to your brother.