باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3894.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فالتو زمین رکھنے والے اپنی زمینیں پانی کے نالوں کے قریب اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ پھر (بسا اوقات) لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر اس کی بابت آپس میں لڑتے جھگڑتے‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس طرح بٹائی پر دینے سے منع کردیا اور فرمایا: ”سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر دیا کرو۔“ سلیمان نے رافع سے یہ حدیث بیان کی تو کہا: عَنْ رَجُلٍ مِنْ عُمُومَتِهِ (ان کے چچاؤں میں سے ایک صاحب سے)۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن شواہد کی بنا پر حدیث میں مذکورہ مسئلہ صحیح ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے‘ نیز سنن ابی داود کی حدیث: ۳۳۹۱ کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم ابوداود ہی کی حدیث: ۳۳۹۵ اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”منع فرما دیا“ کیونکہ اس قسم کی بٹائی سے مزارع کو نقصان ہوتا ہے۔ محنت وہ کرتا مگر اچھی اچھی فصل مالک زمین لے جاتا اور ا س کو ردی فصل پر گزارا کرنا پڑتا تھا‘ لہٰذا آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ البتہ اگر مطلقاً حصہ (مثلاً: کل پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ) کی بنیاد پر بٹائی ہوتو نہ جھگڑا پیدا ہوگا نہ مزارع پر ظلم ہوگا‘ اس لیے بٹائی کی یہ صورت جائز ہے۔ ٹھیکہ بھی جائز ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فالتو زمین رکھنے والے اپنی زمینیں پانی کے نالوں کے قریب اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ پھر (بسا اوقات) لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر اس کی بابت آپس میں لڑتے جھگڑتے‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس طرح بٹائی پر دینے سے منع کردیا اور فرمایا: ”سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر دیا کرو۔“ سلیمان نے رافع سے یہ حدیث بیان کی تو کہا: عَنْ رَجُلٍ مِنْ عُمُومَتِهِ (ان کے چچاؤں میں سے ایک صاحب سے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن شواہد کی بنا پر حدیث میں مذکورہ مسئلہ صحیح ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے‘ نیز سنن ابی داود کی حدیث: ۳۳۹۱ کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم ابوداود ہی کی حدیث: ۳۳۹۵ اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”منع فرما دیا“ کیونکہ اس قسم کی بٹائی سے مزارع کو نقصان ہوتا ہے۔ محنت وہ کرتا مگر اچھی اچھی فصل مالک زمین لے جاتا اور ا س کو ردی فصل پر گزارا کرنا پڑتا تھا‘ لہٰذا آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ البتہ اگر مطلقاً حصہ (مثلاً: کل پیداوار کا نصف یا تہائی وغیرہ) کی بنیاد پر بٹائی ہوتو نہ جھگڑا پیدا ہوگا نہ مزارع پر ظلم ہوگا‘ اس لیے بٹائی کی یہ صورت جائز ہے۔ ٹھیکہ بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ کھیتوں والے لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنے کھیت کرائیے پر اس اناج کے بدلے دیا کرتے تھے جو کھیتوں کی مینڈھوں پر ہوتا ہے۔ تو وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اس سلسلے میں کسی چیز کے بارے میں انہوں نے جھگڑا کیا۔ تو آپ نے انہیں اس کے (غلہ کے) بدلے کرائے پر دینے سے منع فرما دیا اور فرمایا: ”سونے چاندی کے بدلے کرائے پر دو۔“ اس حدیث کو سلیمان بن یسار نے بھی رافع بن خدیج ؓ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے اپنے چچاؤں میں کسی چچا کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
..It was narrated that Sa'd bin Abi Waqqà said: “At the time of the Messenger of Allah (ﷺ) landowners used to lease their arabic land in return for whatever grew on the banks of the streams used for irrigation. They came to the Messenger of Allah (ﷺ) and referred a dispute concerning such matters to him, and the Messenger of Allah (ﷺ) forbade them to lease land on such terms, and said: ‘Lease it for gold or silver.” And Sulaiman reported this [ from Rafi’, so he said: “From a man among his paternal uncles: —