باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3899.
حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے راویت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ سے سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض زمین کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ اپنی زمینیں نالوں کے ساتھ ساتھ اور نالوں (موہگوں) کے سامنے اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیتے تھے۔ کبھی اس حصے کی فصل محفوظ رہتی اور دوسرے حصے کی ضائع ہوجاتی۔ کبھی دوسرے حصے کی فصل محفوظ رہتی اور اس حصے کی فصل ضائع ہوجاتی۔ اس وقت زمین کے کرائے کی یہ شکل ہی رائج تھی‘ اس لیے آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ لیکن کوئی اور معلوم اور معین چیز (رقم) مقرر کرلی جائے جن کا کوئی ضامن بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے اس (اوزاعی) کی سند میں موافقت کی ہے اور اس (اوزاعی) کے الفاظ میں ا سکی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1) ”موافقت کی ہے۔“ اس سند میں موافقت اس طرح سے ہے کہ جس طرح امام اوزاعی نے اپنی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا اسی طرح امام مالک بن انس نے بھی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دونوں حدیث میں کچھ فرق ہے اگرچہ الفاظ کے اس فرق کی وجہ سے حدیث کے معنیٰ اور مفہوم میں کوئی فرق یا اثر نہیں پڑتا۔ واللہ أعلم۔ (2) گویا منع فرمانے کی وجہ وہ ظالمانہ شرائط تھیں جن کی بنا پر مزارع کو سراسر نقصان ہوتا تھا کہ زمین میں سے اچھے حصوں کی فصل مالک اپنے لیے خاص کرلیتے تھے اور ناکارہ حصوں کی فصل پر مزارع کو ٹرخا دیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ ظلم تھا‘ لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا۔ اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو بٹائی میں کوئی حرج نہیں۔ (دیکھیے‘ حدیث:۳۹۲۵)
حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے راویت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ سے سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض زمین کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ اپنی زمینیں نالوں کے ساتھ ساتھ اور نالوں (موہگوں) کے سامنے اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیتے تھے۔ کبھی اس حصے کی فصل محفوظ رہتی اور دوسرے حصے کی ضائع ہوجاتی۔ کبھی دوسرے حصے کی فصل محفوظ رہتی اور اس حصے کی فصل ضائع ہوجاتی۔ اس وقت زمین کے کرائے کی یہ شکل ہی رائج تھی‘ اس لیے آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ لیکن کوئی اور معلوم اور معین چیز (رقم) مقرر کرلی جائے جن کا کوئی ضامن بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے اس (اوزاعی) کی سند میں موافقت کی ہے اور اس (اوزاعی) کے الفاظ میں ا سکی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”موافقت کی ہے۔“ اس سند میں موافقت اس طرح سے ہے کہ جس طرح امام اوزاعی نے اپنی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا اسی طرح امام مالک بن انس نے بھی سند میں رافع بن خدیج کے چچا کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دونوں حدیث میں کچھ فرق ہے اگرچہ الفاظ کے اس فرق کی وجہ سے حدیث کے معنیٰ اور مفہوم میں کوئی فرق یا اثر نہیں پڑتا۔ واللہ أعلم۔ (2) گویا منع فرمانے کی وجہ وہ ظالمانہ شرائط تھیں جن کی بنا پر مزارع کو سراسر نقصان ہوتا تھا کہ زمین میں سے اچھے حصوں کی فصل مالک اپنے لیے خاص کرلیتے تھے اور ناکارہ حصوں کی فصل پر مزارع کو ٹرخا دیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ ظلم تھا‘ لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا۔ اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو بٹائی میں کوئی حرج نہیں۔ (دیکھیے‘ حدیث:۳۹۲۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج ؓ سے دینار اور چاندی کے بدلے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ اس پیداوار کے بدلے کرائے دیا کرتے تھے جو کیاریوں اور نالیوں کے اوپر پیدا ہوتی ہے، تو کبھی اس جگہ پیداوار ہوتی اور دوسری جگہ نہیں ہوتی اور کبھی یہاں نہیں ہوتی اور دوسری جگہ ہوتی، لوگوں کا بٹائی پر دینے کا یہی طریقہ ہوتا، اس لیے اس پر زجر و توبیخ ہوئی۔ رہی معین چیز (پر بٹائی) جس کی ضمانت دی جا سکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے بھی اوزاعی کی سند میں (چچا کے نہ ذکر کرنے میں) موافقت کی ہے لیکن الفاظ میں مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Hanzalah bin Qais Al-Ansari said: "I asked Rafi' bin Khadij about leasing land in return for Dinars and silver. He said: 'There is nothing wrong with that. During the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) they used to rent land to one another in return for what grew on the banks of streams and where the springs emerged - some areas of which might give good produce and some might give none at all - and the people did not lease land in any other way. So that was forbidden. But as for leases where the return is known and guaranteed, there is nothing wrong with that. (Sahih) Malik bin Anas was in accord with the chain, but he differed in the wordings.