Sunan-nasai:
The Book of Menstruation and Istihadah
(Chapter: When Menstrual Blood Gets On Clothes)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
394.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اس کو (کسی چیز سے) کھرچ دو اور پانی ڈال کر ناخنوں سے ملو اور پھر دھو کر اس میں نماز پڑھ لو۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
393
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
392
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
394
تمہید کتاب
اللہ تعالی نے مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ مقاصد کے لیے پیدا فرمایا ہے اسی لیے ان کو صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف دی گئی ہیں جس کی تفصیل ہماری کتاب ’’ عورتوں کے امتیازی مسائل‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔مقاصد تخلیق اور صلاحیت کار کے علاوہ جسمانی ساخت میں بھی مرد عورت ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ اللہ تعالی نے عورت کے جسم کے اندر بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو مرد کے اندر نہیں ہیں، جیسے حیض اور نفاس کا خون۔ یہ خون طبعی ہے یعنی بیماری کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ عورت کے ایک خاص وظیفۂ حیات سے اس کا تعلق ہے اور وہ ہے بچے کی پیدائش۔ یہ ہر عورت کو ہر مہینے چند دن تک آتا ہے۔ اس میں عورت کی صحت اور افزائش نسل کا راز مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس عورت کو یہ ماہانہ خون‘ جسے حیض کہا جاتا ہے نہیں آتا وہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یوں ایک بہت بڑانقص یا خلا اس کی زندگی میں واقع ہو جاتا ہے اور کوئی مرد ایسی عورت کے ساتھ رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہو نا پسند نہیں کرتا۔اس خون کے اخراج سے عورت بالعموم کمزور نہیں ہوتی بشرطیکہ حد اعتدال سے متجاوز نہ ہو۔ یہی خون جب عورت کو حمل قرار پا جاتا ہے تو رحم مادر میں زیر پرورش کے (جنین) کی خوراک کا کام دیتا ہے اسی لیے حمل قرار پاتے ہی خون حیض بند ہو جاتا ہے۔ ولادت کے بعد ہی خون بالعموم دودھ بن کر اس کیچھاتی کے ذریعے سے باہر آتا ہے جسے بچہ دو سال تک جب کہ وہ اور کوئی چیز کھانے کے قابل نہیں ہوتا ماں کی چھاتی سے منہ لگا کر پیتا ہے۔ دو سال تک بچے کی یہی واحد خوراک ہوتی ہے جسے وہ نہایت آسانی سے پی کر شکم سیر ہو جاتا ہے اور اسے مزید کچھ کھانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی۔ جب اس رضاعت (شیرخوارگی) کا دور ختم ہو جاتا ہے تو پھر اس خون کا بھی مصرف باقی نہیں رہتا اور یہ پھر حسب سابق ماہواری کی شکل میں خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی خون کوحیض کہا جاتا ہے۔ لغت میں اس کے معنی ہی سیلان یعنی بہنے کے ہیں ۔ اور اصطلاح شرع میں اس خون کوحیض کہتے ہیں جو عورت کے رحم سے متعین اوقات میں چند دن کے لیے بغیر کسی بیماری یا زخم کے نکلتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی ﷺنے فرمایا: (إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم)’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، باب بیان وجوه الإحرام. ... حدیث: 1213) حیض کا آغاز کب ہوتا ہے اور کب تک جاری رہتا ہے؟ ان دونوں باتوں کے لیے عمر کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ بعض لوگوں نے آغاز کی عمرنو یا بارہ سال اور اختتام کی عمر پچاس سال بتائی ہے لیکن یہ حتمی اور قطعی نہیں ہے۔ ماحول آب و ہوا یا جسمانی صحت وضعف کے حساب سے ہر بچی اور ہر عورت کا معاملہ مختلف ہے 9۔10 سال سے لے کر 14۔15 سال تک حیض کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس طرح پچاس سال یا اس سے کم وبیش عمرمیں حیض آنا بند ہوسکتا ہے۔جس عورت کو حیض آنا بند ہو جائے اس کو آئسه (نا امید) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اس نابالغ بچی کو بھی آئسه کہا جاتا ہے جس کو بھی حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا۔ تولید (نسل کشی )کا سلسلہ حیض سے وابستہہے۔ ان دونوں کو آئسه اسی لیے کہا جا تا ہے کہ جب حیض آنا بند ہو جا تا ہے تو تولیدی سلسلہ بالعموم ختم ہوجاتا ہے اسی طرح جب تک بچی کوحیض نہیں آتا وہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی ہے۔عورت پر حیض کے احکام‘ سن و سال کے حساب سے شروع یا ختم نہیں ہوں گے بلکہ حیض کے وجود پرلا گویا ختم ہوں گے اس کا آغازکسی بھی عمر میں ہو جائے یا کسی بھی عمر میں ختم ہو جائے۔حیض کی مدت ایام حیض: کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ حیض کتنے دن آتا ہے؟ اس کی کوئی حد متعین ہے نہ اس کا کوئی تعین ہی کیا جا سکتا ہے۔ الله تعالی نے صرف حکم دیا ہے کہ ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو لیکن ان سے ہم بستری مت کرو۔ فاعتزلوا النساء في المحيض یہ کنارہ کشی کتنے دن کرنی ہے؟ اللہ نے اس کی حد بندی نہیں کی بلکہ یہ فرمایا: (ولا تقربوه حتى يطهرن (البقرة :2: 222) پاک ہونے تک ان کے قریب مت جاؤ، لیکن تعلق زوجیت قائم مت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ممانعت کی حد تعین (6‘7‘8) ایام نہیں بلکہ طہر ہے۔ عورت حیض سے جب بھی پاک ہو جائے گی خاوند کا اس سے تعلق زن و شو قائم کرنا صحیح ہوگا اور اس سے پہلے ناجائز اور حرام ۔ اس لیے اس کا فیصلہ ہر عورت اپنی عادت کے مطابق کرے گی کہ اس کو کتنے دن ماہواری آتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر ایک عورت کو چھ دن ماہواری کا خون آتا ہے تو ہمیشہ چھ دن ہی آئے گا بلکہ اس کے ایام بھی کم و بیش ہو سکتے ہیں اس لیے اصل فیصلہ حیض کے وجود یا عدم ہی پر ہوگا۔٭ حالت حمل میں حیض اور اس کا حکم: حمل کی حالت میں حیض کا سلسلہ جاری رہتا ہے یا بند ہو جاتا ہے؟ اس میں علماء کی دورائے ہیں ۔ علماء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حمل کی حالت میں حیض بند ہو جاتا ہے اور یہی خون جنین ( پیٹ میں بچے )کی نشوونما کے کام آتا ہے۔ دوسرے علماء کی رائے ہے کہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ حمل ٹھہرتے ہی حیض کا خون آنا بند ہو جاتا ہے اور خون کی یہ بندش حمل کی علامت بجھی جاتی ہے۔ لیکن بعض دفه خلاف عادت بعض عورتوں کو عمل میں بھی خون آجاتا ہے۔ اس کا بالکلیہ انکارنہیں کیا جاسکتا اس لیے اس کی بابت بھی مسئلہ مجھ لینا ضروری ہےحمل کی حالت بالعموم9 مہینے ہوتی ہے تاہم بعض حالات میں اس سے کم و بیش بھی ہو جاتی ہے۔ اگر خون مل کے آخری ایام میں ولادت سے دو تین روز قبل آئے اور اس کے ساتھ در دزہ بھی ہو تو خون حیض کا نہیں نفاس (وضع حمل) کا ہے۔ اور اگر یہ خون وضع حمل کی مدت سے بہت پہلے آئے یا چند روز پہلے آئے لیکن اس کے ساتھ در دزہ نہ ہوتو اس صورت میں یہ حیض کا خون ہوگا کہ جس سے حیض کے احکام اس کے لیے ثابت ہوں گے یا بی فاسد خون سمجھا جائے گا جس سے حیض کے احکام ثابت نہیں ہوں گے؟ اس کی بابت اختلاف ہے۔جو علماء حالت حمل میں حیض آنے کے قائل ہیں ان کے نزدیک حیض کا خون ہے بشرطیکہ خون اپنی رنگت وغیرہ میں اس عادت کے مطابق ہو جوحیض کی حالت میں اس عورت کی ہوتی ہے اس لیے کہاس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ حالت حمل میں حیض نہیں آ سکتا۔امام مالک، امام شافعی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور عصر حاضر کے علماء میں سے شیخ محمد بن صاعثیمین اسی رائے کے قائل ہیں۔ایسی عورت پر حیض کے تمام احکام لا گو ہوں گے سوائے دومسٔلوں کے۔ اور وہ دو مسئلے ہیں: مسلمۂطلاق اور مسئلۂ عدت۔ حائضہ عورت کو طلاق دینا ممنوع ہے اس لیے کہ حکم یہ ہے: «فطلقوهن لعدتهن (الطلاق 45/1) ’’تم ان کو طلاق ان کی عدت کے آغاز میں دو ‘‘ عدت کا آغاز کب ہوتا ہے؟ جب عورت حیض سے پاک ہوجاتی ہے لیکن طلاق دینی ہو تو پاک ہونے کے بعد ان سے ہم بستری کیے بغیر طلاق دو۔ نبی ﷺ نے بھی حالت حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن حاملہ حائضہ کو طلاق دینا جائز ہوگا‘ اس لیے کہ اس کو طلاق دینا اس آیت کے خلاف نہیں ہوگا کیونکہ اس کی عدت کا آغاز طہر سے نہیں ہوتا کہ اس کے شروع ہونے کا انتظار کیا جائے بلکہ دوران حمل میں جب بھی طلاق دے دی جائے وہی اس کی عدت کا آغاز ہوتا ہے لہذا اگر خاوند اس حالت میں اس کو طلاق دینا چا ہے تو اس کے لیے طلاق دینا جائز ہوگا۔دوسرا مسئلہ عدت کا ہے۔ اس عورت کی عدت تین حیض یا تین مہینے نہیں ہوگی بلکہ وضع حمل ہو گی ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الطلاق65: 4)’’حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘حیض کی مختلف صورتوں اور حالتوں کا علم : اکثر عورتوں کو اگر چہ حیض کا خون عادت کے مطابق آتا اور بند ہوتا ہے لیکن بہت سی عورتوں کی عادت میں معمولی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مثلا: یہ تبدیلی بعض دفعہ زیادتی یا کمی کی شکل میں ہوتی ہے جیسے کسی عورت کی عادت تو چھ دن کی ہے لیکنساتویں دن بھی خون جاری رہتا ہے۔ یا کسی عورت کی عادت تو سات دن کی ہے لیکن بعض دفعہ وہ چھٹے دن ہی میں پاک ہو جاتی ہے بعض دفعہ یہ تبدیلی آگے پیچھے ہونے کی صورت میں ہوتی ہے مثال کے طور پر ایک عورت کی عادت ہے کہ اس کو مہینے کے آخر میں حیض آتا ہے لیکن کسی وقت مہینے کے آغاز میں حیض آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی عادت تو مہینے کے شروع کی ہے لیکن کسی وقت اس کو مہینے کے آخر میں حیض آتا ہے۔ دونوں صورتوں کا حکم یہ ہے کہ وہ جب بھی حیض دیکھے گی حائضہ متصور ہوگی اور جب بھی حیض کا خون بند ہو جائے گا تو پاک سمجھی جائے گی چاہے عادت سے ایک دو دن کم آئے یا زیادہ مہینے کے آخر میں آنے کے بجائے آغاز میں آ جائے یا آغاز میں آنے کے بجائے آخر میں آجائے حکم کا مدار حیض کے وجود یا عدم وجود پر ہے کمی پیشی یا آگے پیچھے ہونے سے حیض کے احکام میں کوئیتبدیلی نہیں ہوگی۔ مذکورہ دوصورتوں کے علاوہ ایک تیسری صورت بعض دفعہ یہ ہوتی ہے کہ عورت سرخ رنگ کے بجائےخون کا رنگ زرد دیکھتی ہے جیسے زخموں کا پانی ہوتا ہے یا گدلا (مٹیالہ ) رنگ دیکھتی ہے جو زر دی اور سیاہی کے درمیان ہوتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر رنگت کی یہ تبدیلی اس کے ایام حیض کے دوران میں ہوتی ہے یا طہر سے کچھ پہلے حیض کے اختتام پر ہوتی ہے تو یہ حیض ہی کا خون شمار ہوگا اور حیض کے احکام اس پرلا گور ہیں گے۔ اور اگر یہ کیفیت طہر کے بعد ہوگی تو اس کوحیض شمارنہیں کیا جائے گا۔ حضرت ام عطیہ ؓ بیان فرماتی ہیں:[كنا لا نعدالکدرۃ والصفرۃ بعد الظهر شيأ ] ’’کمر کے بعد ہم نیا لے یا زردرنگ کو کچھ نہیں سمجھتی تھیں‘‘( سنن أبي داود الطهارة، باب في المرأة ترى الصفرة والكدرة بعد الطهر حديث : 307) :٭ ایک چوتھی شکل یہ ہوتی ہے کہ حیض کا خون تسلسل کے ساتھ جاری نہیں رہتا، ایک روز آتا ہےدوسرے روز نہیں آتا۔ اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ ایک عورت کی حالت مستقل طور پر ایسی رہے تو یہ استحاضے کا خون شمار ہوگااور استحاضےکے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔ (جس کی تفصیل استھانے کے احکام میں آئے گی۔)دوسری صورت یہ ہے کہ کسی وقت خون آتا ہے اور کسی وقت نہیں آتا، کسی وقت حیض کی حالت ہوتی ہے اور کسی وقت طہر کی۔ اس میں را جح مسلک یہ ہے کہ اسے حیض شمار کیا جائے گا اور حیض کے احکام اس پر لاگو ہوں گے اس لیے کہ اگر اسے طہر شمار کیا جائے تو اس میں عورت کے لیے مشقتہے۔ اسے بار بارغسل کرنا پڑے گا جب کہ دین میں تنگی نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ) ’اللہ نے تم پر دین میں تنگی نہیں کی ہے۔ نیز ارشاد ہے:( يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ) (البقرة 2/158 ) الله تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے تمھارے ساتھ تنگی کرنانہیں چاہتا۔ رسول اللہ ﷺکا بھی فرمان ہے:[ ان الدين يسرا]”بلاشبہ دین آسان ہے۔ (صحیح البخاري، الإيمان حدیث :39) ٭ ایک پانچویں شکل یہ ہوتی ہے کہ حیض کا خون خشک ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ عورت صرفرطوبت ہی دیکھتی ہے۔ یہ صورت اگر حیض کے دوران میں ہوتی ہے یا طہر سے کچھ پہلے تو یہ حیض ہوگا۔ اور یہ کیفیت اگر طہر کے بعد ہوتو پھر حیض نہیں ہوگا اس لیے کہ اس صورت کو زیادہ سے زیادہ صفره (زردرنگ) یا کدرہ (مٹیالہ رنگ) کے ساتھ ہی ملحق کیا جا سکتا ہے۔ اور طہر کے بعد یہ رنگتحیض میں شمارنہیں ہوتی۔٭ ایک چھٹی شکل یہ ہوتی ہے کہ مثال کے طور پر پہلے چار دن مسلسل خون آئے اس کے بعد بند ہوجائے ساتویں دن پھر خون شروع ہو جائے اور پھر بارہویں دن تک مٹیالے رنگ کا خون آتا رہے۔ اس کا کیا حکم ہے؟ شیخ ابن باز نے اس کا حکم یہ بتایا ہے کہ پہلے چار دن اور دوسرے چھ دن حیض کے دن شمار ہوں گے۔ درمیان کے دو دن حیض کے دن شمار نہیں ہوں گے ۔ ان میں وہ غسل کر کے نماز پڑھے گی اور خاوند کے ساتھ تعلق قائم کرنا بھی جائز ہو گا۔ اس صورت میں یہ معلوم ہوا کہ حیض کے ایام اگر چہ زیادہ تر مسلسل ہی ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر الگ الگ بھی آ سکتے ہیں۔٭ ساتویں شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ عورت اپنی عادت کے مطابق5 یا 6 دن حیض کے گزار کے پاک ہوجاتی ہے لیکن غسل کے فورا بعد انتہائی قلیل مقدار میں خون آ جاتا ہے اور پھر بند ہو جاتا ہے۔ اس کو کیا شمار کیا جائے گا؟ طہارت یعنی غسل کے بعد آنے والا خون اگر زرد یا مٹیالے رنگ کا ہو تو وہ غیر معتبر ہوگا لیکن اسے پیشاب کی طرح سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر وہ حیض کے خون کی طرح خالص سرخ رنگ کا خون ہے تو وہ حیض ہی کا خون سمجھا جائے گا اور حیض کے احکام اس پر عائد ہوں گے۔ اسی طرح عادت سے ایک دو روز قبل سیاہی مائل خون آئے اس میں حیض کے خون کی طرح کی کیفیت اور درد ہو تو وہ حیض ہی کا خون ہوگا۔٭آٹھویں شکل: ایک عورت پچاس سال سے زیادہ عمر کی ہے۔ اسے ہر مہینے یا دو تین مہینے کے بعد دوتین دن شدت سے خون آتا ہے باقی ایام میں کم ۔ کیا یہ خون حیض کا ہوگا ؟ کبرسنی (بڑی عمر) یابے قاعدگی کی وجہ سے حیض کا خون نہیں بلکہ فاسد خون شمار ہوگا۔ جب عورت مذکورہ عمر کو پہنچ جائے یا اس کی ماہانہ عادت بے قاعدہ ہو جائے تو اس سے حیض اورحمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے لہذا اسیعورت سے مذکورہ طریقے سے آنے والا خون حیض کا نہیں استحاضے کا خون شمار ہوگا جس کے احکام استحاضے کے بیان میں درج ہوں گے۔٭ حیض ختم ہونے کی علامت اور پہچان : حیض ختم ہونے کا علم ویسے تو ہرعورت کو اپنی عادت کےمطابق ہو جاتا ہے تا ہم اشتباہ کی صورت میں دو علامتوں سے بھی اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔پہلی علامت سفید پانی کا خارج ہوتا ہے۔ اگر چہ عورتوں کے حالات کے اختلاف سے اس پانی کا رنگ مختلف ہو سکتا ہے تا ہم اکثریت اور عمومیت کے اعتبار سے یہ چونے کی طرح سفید رنگ کا پانی ہوتا ہے۔دوسری علامت خشکی ہے لیکن شرم گاہ میں کپڑے کا ٹکڑا یا روئی یا ٹشو پیپر ڈال کر نکالے تو وہ خشک نے اس پر نہ خون کا اثر ہو اور نہ زرد یا مٹیالے رنگ کے مادےہی کا۔ ٭حیض کے ضروری احکام : حیض کا خون بند ہونے کے بعدغسل کرنا ضروری ہے۔ یہ غسل اسی طرح کرے جس طرح جنابت کا غسل ہوتا ہے البتہ صرف اتنا فرق ہے کہ غسل حیض کرتے وقت اگر سر کے بال چوٹی کی شکل میں بندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھولنا ضروری ہے کیونکہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچانا لازم ہے۔ بال خشک نہیں رہنے چاہئیں اگر کچھ بال خشک رہ جائیں تو غسل نامکمل ہوگا۔ بعض علماء غسل حیض میں چوٹی کے بال نہ کھولنے کے قائل ہیں لیکن دلائل کی رو سے راجح اور درست موقف یہی ہے کہ غسل حیض میں بالوں کو کھولا جائے ۔ والله أعلم. مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :کتاب الغسل والتيمم کا ابتدئيه ۔٭ اگر مرد نے عورت کے ساتھ ہم بستری کی اور ابھی عورت نے جنابت کا غسل نہیں کیا کہ اس کوحیض آنا شروع ہو گیا۔ اب اس کے لیے جنابت کا غسل ضروری ہے یانہیں؟ غسل کا مقصد طہارت حاصل کرنا ہے۔ جب وہ حائضہ ہوگئی ہے تو ظاہر بات ہے کہ غسل جنابت سے اس کو طہارت تو حاصل نہیں ہوگی جس کے بعد بھی وہ حیض کی وجہ سے ناپاک ہی رہے گی اس لیے اگر وہ ایام حیض گزار کر غسل کرے گی توبھی غسل حیض اور جنابت دونوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے کافی ہوگا دو ناپا کیوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ایک غسل کافی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص اپنی ایک بیوی سے ہم بستری کرے اور غسل جنابت سے پہلے دوسری بیوی سے ہم بستری کر کے بعد میں دونوں جنابتوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ایک ہی غسل کر لے۔ ایسا کرنا جائز ہے اور اس سے وہ یقینا پاک ہو جائے گا۔ خود نبی ﷺکا یہ عمل ثابت ہے کہ تمام بیویوں سے صحبت کرنے کے بعد ایک ہی غسل کیا۔ ٭ زیادہ صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے مستحب ہے کہ پانی میں بیری کے پتے ڈال کر پانی گرمکرلیا جائے لیکن اب اس کی جگہ صابن کفایت کرسکتا ہے۔ مقصد اچھی طرح صفائی حاصل کرنا ہے۔ ٭یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ عورت حیض سے پاک ہو جائے لیکن غسل کرنے کے لیے پانی دستیاب نہ ہو یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی کے استعمال میں نقصان کا خطرہ ہوتو اس صورت میں عورت تیمم کرکے بھی پاک ہوسکتی ہے اور مرد کا اس کے ساتھ تعلق زوجیت قائم کرنا بھی صحیح ہوگا۔ ٭غسل حیض کے بعد خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے تا کہ حیض کی بو کے اثرات ختم ہو جائیں۔ ٭ حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل طہارت میں تاخیر نہ کرے اگر نماز کے وقت کے دوران میںپاک ہوگئی ہے تو فورا غسل کر کے وہ نماز پڑھے۔ اگر سفر میں ہو اور وہاں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی تو ہولیکن بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی کا استعمال اس کے لیے نقصان کا باعث ہوتو غسل کے بجائےتیمم کر کے نماز پڑھ لے۔ ٭ حیض کے شروع ہوتے ہی عورت کے لیے نماز معاف ہے جب تک حیض بند نہیں ہو گا اس وقتتک اس کو یہ معافی حاصل ہے۔ فرض نماز کے علا وہ نفل نماز بھی پڑھنا اس کے لیے جائز نہیں ۔ ہاں پاک ہوتے ہی نماز اس پر پھر بلا تاخیر فرض ہو جائے گی ‘چاہے وہ نماز کے اول وقت میں پاک ہویا آخر وقت میں ۔ دوران ِحیض میں فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا نہیں ہے۔ ٭ حیض کے ایام میں عورت کو روزہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے حتی کہ اگر روزےکی حالت میں اس کو حیض کا خون آنا شروع ہو جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا چاہے وقت افطار سے چندلمحے قبل ہی اس کو حیض شروع ہو۔ اور اگر چھوٹنے والے روزے رمضان کے فرض روزے ہوں تو ان کی قضا ضروری ہے تا ہم نفلی روزہ اگر اس حالت میں ٹوٹ جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اس کی قضا دینا چاہے تو جائز ہے۔حیض کی حالت میں نماز روزے کی ممانعت درج ذیل حدیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: [أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ فذلك نقصان دينها ] ’’کیا ایسا نہیں ہےکہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے پس یہ اس کے دین کی کمی ( کی دلیل) ہے ۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، باب الحائض تترك الصوم والصلاة حديث: 1951)اور نماز کی قضا نہیں صرف روزوں کی قضا ہے۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے[ نؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاۃ] ’’ ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔“ (سنن أبي داود الطهارة باب في الحائض لاتقضي الصلاة حديث: 263)٭ حیض کی حالت میں خاوند بیوی کے ساتھ ایک ہی لحاف میں لیٹ سکتا ہے اور اس کے ساتھ مباشرتکرسکتا ہے۔ مباشرت کا مطلب اس کے ساتھ بغل گیر ہونا معانقہ کرنا اور بوس و کنار کرنا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:[ اصنعوا كل شي و غير النكاح]’’ ا جماع کے علاوہ ہر کام تمھارے لیے جائز ہے۔‘‘ (سنن أبي داود الطهارة، باب مؤاكلة الحائض و مجامعتها حديث: 258) اللہ تعالی کا فرمان ہے: (واعتزلوا النساء في المحيض) (البقرة 2/222)’’ حیض کی حالت میں عورتوں سے کنارہ کش رہو‘‘ یہ کنار کشی صرف جماع ( ہم بستری) سے ہے۔ اس کے علاوہ عورتکے ساتھ ہر معاملہ جائز ہے اور ہر طرح کا تعلق قائم کرنا حلال ہے اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا صحیح ہےاور اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا جائز ہے۔٭ خاوند کا حائضہ بیوی سے اس وقت تک ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے جب تک وہ حیض سے پاکنہیں ہو جاتی ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: (وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ)(البقرة 2: 222) ’’ تم ان عورتوں کے قریب مت جاؤ (یعنی ان سے ہم بستری مت کرو) یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں جب وہ پاک ہو جائیں تو تم ان کے پاس وہاں سے آ و جہاں سے آنے کا تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘پاک ہونے کا مطلب ہے کہ جب حیض کا خون بند ہوجائے اور اس کے بعد وہ غسل کر لے یعنی خون بند ہونے کے بعدغسل کرنا بھی ضروری ہے پھر وہ پاک متصور ہوگی اور خاوند کا اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا جائز ہوگا۔بعض علماء کے نزدیک غسل ضروری نہیں ہے انقطاع دم کے ساتھ ہی عورت پاک ہو جائے گی اور غسل سے قبل بھی خاوند کا اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا جائز ہوگا۔ عورت صرف موضع دم (شرم گاه) دهو لے یا وضو کر لے ان دونوں سے بھی اسے اسی طرح طہارت حاصل ہو جائے گی جیسے غسل سے حاصل ہوتی ہے۔ امام ابن حزم شخ البانی اور دیگر بعض ائمہ اس کے قائل ہیں۔ دیکھیے : (المحلی: 2/ 171/، و آداب الزفاف، ص:26۔28) لیکن جمہور علماء کے نزدیک غسل کے بغیر خاوند کا اس سے تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی رائے زیادہ محتاط اور راجح ہے۔والله أعلم . البتہ پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں یا پانی کے استعمال کی قدرت نہ رکھنے کی صورت میں تیمم بھی طہارت کے لیے کافی ہوگا جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔٭عورت جس لباس میں حائضہ ہوئی ہو پاک ہونے کے بعد اس لباس میں اس کے لیے نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں حیض کا خون نہ لگا ہوا ہو اگر لگا ہوا ہو تو متعلقہ حصہ دھولیا جائے اور باقی پرچھینٹے مار لیے جائیں۔ (صحیح البخاري، الحیض باب غسل دم المحيض حديث: 307‘308) ٭حاجی کے لیے ضروری ہے کہ حج سے فراغت کے بعد واپسی سے پہلے طواف وداع بھی کرےلیکن عورت نے اگر (10 ذوالحجہ کو) طواف افاضہ کر لیا ہو اور اس کے بعد اس کو ایام حیض شروع ہوگئے ہوں تو اس کے لیے طواف وداع ضروری نہیں وہ اس کے بغیر بھی واپس آ سکتی ہے اس کا حج مکمل ہی ہے۔ ٭عورت رمضان المبارک میں فجر سے پہلے گر پاک ہو جائے تو وہ غسل کے بغیر سحری کھا کر روزہ رکھ سکتی ہے تاہم نماز کے لیے غسل ضروری ہوگا۔ یہ مسئلہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ ٭ کسی عورت کوکسی نماز کے اول وقت یا آخری وقت میں حیض یا نفاس کا خون شروع ہو گیا جب کہاس نے وہ نماز نہیں پڑھی تو بعض علماء کہتے ہیں کہ پاک ہونے کے بعد وہ اس نماز کی قضا دے گی لیکن میری بات یہ ہے کہ اس پر کوئی قضا نہیں اس لیے کہ نبی ﷺنے کسی عورت کو اس قسم کا کوئیحکم نہیں دیا ۔٭اگر کوئی عورت کسی نماز کے آخری وقت میں پاک ہوئی کہ اس وقت میں ایک رکعت کی ادائیگی بھیناممکن تھی اورغسل کرتے کرتے اس نماز کا وقت ختم ہو گیا تو اس پر بھی اس نماز کی قضا نہیں ۔ مثالکے طور پر ایک عورت ظہر کے آخری وقت میں عصر کا وقت شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے پاک ہوئی غسل کرتے ہوئے ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو گیا تو اس کے لیے صرف عصر کی نماز پڑھ لینا کافی ہے۔ ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھنی ضروری نہیں جیسا کہ جمہور اہل علم کہتے ہیں۔٭اسی طرح بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر کوئی عورت سورج غروب ہونے سے پہلے حیض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے تو اس کے لیے ظہر اور عصر دونوں نمازوں کا پڑھنا ضروری ہوگا۔ اور اگر رات کو طلوع فجر سے قبل پاک ہو تو اس کے لیے مغرب اور عشاء دونوں نمازوں کا پڑھنا لازمی ہو گا ۔ لیکن یہ مسئلہ کی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ شرعی دلائل سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس نماز کے وقت عورت پاک ہو اس نماز کا پڑھنا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس سے متصل نماز کا پڑھنا ضرورینہیں ہے۔ ٭ حیض کی حالت میں اگر خاوند بیوی سے ہم بستری (جماع) کرنا چاہے تو بیوی کے لیے ضروری ہےکہ وہ اس کی خواہش پوری کرنے سےسختی کے ساتھ انکار کر دے اس لیے کہ جہاں خالق کی نافرمانیلازم آتی ہو وہاں مخلوق کی اطاعت ضروری نہیں بلکہ انکار ضروری ہے۔٭خاوند اس حالت میں اپنی جنسی خواہش پوری کرنے میں زبر دی کرے گا تو وہ تخت گناہ گار ہوگا تاہم عورت مجبور ہونے کی وجہ سے معذور ہوگی اس کے لیے توبہ و استغفار کافی ہے۔ و حالت حیض میں بیوی سے جماع کرنے کا کفارہ ایک حدیث میں ایک دینار یا نصف دینار بتلایا گیاہے۔ دیکھیے : (سنن أبي داود الطهارة باب في إتيان الحائض، حدیث: 264) حدیث میں دینار یا آدھے دینار کا جو اختیار دیا گیا ہے اس کی بابت حضرت عبداللہ بن عباس نے صراحت فرمائی ہے کہ دینار اس وقت جب وہ ابتدائے حیض میں جماع کرے اور نصف دینار اس وقت جب وہ حیض کے آخری دنوں میں جماع کرے۔ دیکھیے : (سنن أبي داود الطهارة حديث: 265، )شیخ البانی والے نے اسے موقوفا صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے :(صحيح سنن أبي داود (مفصل) الطهارة رقم: 258) جبکہ بعض علماء اس کی بابت فرماتے ہیں کہ دینار اور نصف دینار کا اختیار غالبا ً مالی حیثیتکے پیش نظر ہے۔ زیادہ حیثیت والا ایک دینار اور کم حیثیت والا نصف دینار دے۔ والله أعلم.اس صدقے کی وجہ یہ ہے: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (هود11: 114 )’’ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ ایک دینار کا وزن کم و بیش ساڑھے چار ماشے سونا ہے جو جدید اعشاری نظام کے مطابق 4 گرام 374 ملی گرام سونا بنتا ہے۔ اتنے سونے کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہکرنا ہے۔ ٭اگر کوئی عورت حج پرگئی ہے اور وہاں اس نے طواف کر لیا ہے طواف کے بعد وہ حائضہ ہوگئی تو وہ حجکے بقیہ ارکان و مناسک ادا کرے۔ لیکن اگر وہاں پہنچتے ہی حائضہ ہوگئی تو اس کے لیے طواف کرناجائز نہیں ہے۔ طواف کے علاوہ باقی مناسک حج ادا کرے۔ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا تو رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا تھا: (افعلي کما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري) تم وہ سارے کام کرو جو جاری کرتے ہیں سوائے بیت اللہ کے طواف کے یہاں تک کہ تم پاک ہو جاو۔“ (صحیح البخاري، الحج، باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت....حديث:1650) بعد میں وہ طواف اس وقت کرے گا جب وہ پاک ہو جائے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے بھی طواف پاک ہونے کے بعد کیا تھا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں: [وحاضت عائشة فنسكت المناسك كلها غير انها لم تطف بالبيت ،فلما طهرت طافت بالبيت ]حضرت عائشہ ؓ حائضہ ہو گئیں تو انھوں نے حج کے تمام افعال ادا کیے سوائے بیت اللہ کے طوافکے پھر جب وہ پاک ہوئیں تو بیت الله کا طواف کیا۔“ (صحيح البخاري، الحج حديث : (1651)یعنی اس صورت میں عورت کے لیے حج کی ترتیب الٹی ہو جائے گی۔ عام لوگ پہلے عمرہ کرنےپھر حج کرتے ہیں حائضہ پہلے حج کے ارکان ادا کرے گی اور پاک ہونے کے بعد طواف اور سعی کر کے عمره کرے گی، لیکن اس کا یہ حج تمتع کے بجائے حج قران ہوگا۔٭10ذ والحجہ کو طواف افاضہ کرنا ‘جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، حج کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اگر حائضہ 10 ذوالحجہ تک پاک نہ ہو اور اس وجہ سے طواف افاضہ نہ کر سکے تو اس کا حج مکمل نہیں ہوگا۔ طواف افاضہ کے لیے اسے رکنا پڑے گا یا دوبارہ مکہ آ نا پڑے گا۔ علاوہ ازیں وہ جب تک دوبارہ آ کر طواف افاضہ نہیں کر لے گی وہ حالت احرام ہی میں رہے گی اور احرام کی پابندیاں اس پر عائدرہیں گی جیسے خاوند کے ساتھ ہم بستری وغیرہ کرنا اس کے لیے ممنوع ہوگا۔ ٭ حیض کی وجہ سے عورت طواف وداع نہ کر سکے تو اس کی اس کو رخصت ہے البتہ طواف افاضہ کےلیے دوبارہ آئے تو طواف افاضہ کے ساتھ طواف وداع کی بھی نیت کر لے۔ اور زیاد بہتر یہ ہے کہ میقات کے قریب یا میقات پر آ کر عمرے کی نیت کر کے احرام باندھے اور مکہ آ کر عمرہ کرنے اور اس کے بعد باقی مانده طواف افاضہ کر کے اس کے بعد ہی اس کا جو مکمل ہو گا البتہ طواف افاضہ کے بغیر سفر کرنے اور دوبارہ پلٹ کر آنے میں اس پر کوئی فد یہ نہیں پڑے گا ۔ (فتاوى و رسائل الشيخ محمد بن ابراهیم :6/61‘62)٭ سفرحج کے آغاز ہی میں اگر عورت حائضہ ہو جائے تو وہ اسی حالت میں غسل کر کے احرام باندھ سکتی ہے البتہ اس موقع پر وہ دو رکعت نماز نہیں پڑھ سکتی جسے لوگ احرام باندھتے وقت ضروری سمجھتے ہیںحالانکہ یہ دو رکعتیں اس موقع پر شرعا ضروری نہیں ہیں اس کے بغیر بھی احرام باندھنا بالکل صحیح ہے۔ ٭ حالت حیض میں عورت کو طلاق دین قرآن و حدیث کے خلاف ہے جیسا کہ پہلے اس کی کچھ تفصیلگزر چکی ہے البتہ طلاق خلع ہر حالت میں جائز ہے چاہے عورت حائضہ ہو یا پاک۔٭ حالت حیض میں عقد نکاح جائز ہے اس لیے کہ اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں البتہ خاوند کے لیے پاک ہونے تک اس سے میاں بیوی والا خاص تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے صرف بوس و کنار اورمعانقہ وغیرہ کرسکتا ہے۔ ٭ حائضہ عورت مردہ عورت کوغسل دے سکتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنا سر مبارک مسجد میں کھڑے ہو کر باہر نکا لتے جب کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوتے۔ میں آپ کا سر دھو دیا کرتی تھی درآں حالیکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی ۔ (صحیح البخاري، الحیض باب مباشرة الحائض حديث:296‘301) ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے مسجد سے چٹائی پکڑا دو‘‘ میں نے کہا: میں تو حیض سے ہوں؟ آپ نے فرمایا:[ فنا ولينيها فإن الحيضة ليست في يدك] ’’ مجھے پکڑا دو! اس لیے کہ حیض تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ (صحیح مسلم الحيض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها و ترجیله و طهارة سؤرها والإتكاء في حجرها و قراءة القرآن فيه حديث: 289) اسی طرح حدیث:[ إن المسلم لا ينجس]مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔“ (صحیح مسلم الحيض، باب الدليل على أن المسلم لا ينجس حديث : 371) سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہحائضہ مردے کو غسل دے سکتی ہے۔ ٭حائضہ عورت ایام حج میں اپنا حیض ختم کرنے کے لیے اگر ایسی دوائی استعمال کرے جس سے اس کاحیض بند ہو جائے تو ایسا کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ صحت اور جان کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ ہو جیسے ایک عورت 10 ذوالحجہ تک پاک نہ ہو سکے جب کہ اس نے اس سے قبل کے مناسک حج ادا کر لیے ہیں ۔ اب 10 ذوالحج کو اس کے لیے طواف افاضہ ضروری ہے اس کے بغیر اس کا حج مکمل نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں وہ پاک ہونے کا انتظار کرتی ہے تو اس کے لیے سفری مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ آج کل واپسی کی تاریخیں بھی مقرر ہوتی ہیں۔ اس صورت میں وہ دوائی کھا کے خون بند ہونے کے بعد وہ غسل کر کے پاک ہو جائے اور طواف افاضہ کر لے اور نماز یں وغیرہ بھی ادا کرلے۔٭ اسی طرح سفر کے آغاز میں وہ اس قسم کی مانع حیض دوائی کھا لے تا کہ دوران حج میں حیض اسکے لیے رکاوٹ نہ بنے تو مذکورہ شرط کے ساتھ بھی جائز ہے۔ ٭ رمضان المبارک میں بھی بعض سعودی علماء نے مانع حیض دوائی کھانے کی اجازت دی ہے تا کہرمضان کے روزے مکمل رکھے جا سکیں لیکن ہمارے خیال میں یہ فتوی صحیح نہیں ہے اسے حج پر قیاس کر کے اس کے جواز کا فتوی دینامحل نظر ہے اس لیے کہ میں تو معاملہ اضطرار کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ بنابر یں وہاں حیض کو بند کرنے یا روکنے کا جواز قابل فہم ہے۔ لیکن رمضان میں اضطرار کی کوئی صورت نہیں، محض تکمیل صیام کی خواہش اور اس کا شوق ہے۔ لیکن چونکہ اس میں تغییر خلقلغير خلق الله کا مفہوم پایا جاتا ہے ‘لہذ محض شوق تکمیل صیام اس کے جواز کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ۔ رمضان کے روزوں کا جو فطری طریق ہے جس میں عورت کو چند روز ے ضرور چھوڑنے پڑتے ہیں وہی عورت کے لیے شرعی طریقہ ہے اس میں بلا وجہ دوائیوں کے ذریعے سے تبدیلی کرنا شرعی لحاظ سے محل نظر ہے۔علاوہ ازیں طبی نقطہ نظر سے بھی مانع حیض گولیاں اور دوائیاں رحم اور حیض مفاد کے لیے نقصان دہ ہیں ۔ ان سے رحم میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور بعض دفعہ عورت با نجھ تک بھی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حیض کی عادت میں بھی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے جس سے صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے مانع حیض گولیوں کا استعمال شرعی اور طبی دونوں لحاظ سے یکسر غلط ہے اور انھیں بوقت ضرورت کے علاوہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔٭مانع حمل گولیوں کا استعال : اسی طرح مانع حمل گولیوں کا استعمال ہے یہ بھی نہ مطلق جائز ہے اور نہ مطلق ممنوع بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ بعض بالکل ممنوع ہیں اور بعض صورتوں میں چند شرائط کے ساتھ اس کا جواز ہے مثلا: کوئی عورت اس لیے یہ گولیاں استعمال کرے کہ مستقل طور پر اس کے حمل کا مسئلہ ختم ہو جائے اسے کبھی بھی حمل نہ ٹھہر ہے۔ ایسا کرنا بالکل ناجائز ہے اس لیے کہ نبی ﷺ نے تکثیر امت کی ترغیب دی ہے اور یہ عمل تقلیل امت کا باعث ہے۔ یہ برتھ کنٹرول (ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کی وہ صورت ہے جس کا اسلام میں قطعا کوئی جواز نہیں ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ عارضی طور پرعمل روکنے کے لیے مانع حمل گولیاں استعمال کی جائیں بعضصورتوں میں جائز ہیں بشرطیکہ ان کا استعمال صحت اور جان کے لیے خطرے کا باعث نہ ہو مثلاً:کسی عورت کو بہت جلدی جلدی حمل ٹھہر جاتا ہے ‘اس کا دو بچوں کے درمیان وقفہ بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی رضاعت و نگهبانی بھی خاطر خواہ نہیں ہو پاتی۔ دوسرے ‘ خود عورت کی صحت بھی کثرت حمل کی متحمل نہیں ہوتی بلکہ چند بچوں کی پیدائش کے بعد مناسب وقفے کے بغیر حمل کا یہ تسلسل اس کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی عورت کے لیے دو شرطوں کے ساتھ مناسب وقفے کے لیے مانع حمل گولیوں کا استعمال جائز ہے۔ وہ دو شرطیں حسب ذیل ہیں: خاوند کی اجازت اسے حاصل ہو۔2۔ اس کی صحت اور جان کو خطرہ نہ ہو۔اس کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے عزل کرتے تھے لیکن نبیﷺ نے با و جو علم کے اور پوچھے جانے کے ‘منع نہیں فرمایا۔ اور عزل کا مطلب یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے جماع کرے اور انزال کے وقت اس سے علیحدہ ہو جائے تا کہ منی اس کے رحم کے اندر نہ جائے اور اسے حمل نہ ٹھہرے۔لیکن ان عورتوں کے لیے مانع حمل گولیوں کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے جو مذکورہ صورت حال سے دوچار نہیں ہیں بلکہ وہ حمل سے صرف اس لیے پینا چاہتی ہیں کہ٭ ان کے حسن و جمال پر کوئی اثر نہ پڑے۔٭چلتے ہوئے نعرے اور فیشن کے مطابق دو تین بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنا پسند نہیں کرتیں۔ ٭ زیادہ بچوں کی پیدائش پر فکر مند ہوتی ہیں کہ ان کو کہاں سے کھلائیں پلائیں گی اور ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیسے کریں گی؟ یہ سوچ توکل علی اللہ کے منافی ہے جو مسلمان کے شایان شان نہیں۔یہ اور اس قسم کے تصورات کے تحت حمل سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔٭حائضہ کا قرآن کریم کی تلاوت کرنا : اس مسئلے کی بابت علماء کی مختلف آراء ہیں لیکن دلائل کی رو سے راجح اور درست بات یہ ہے کہ حیض و جنابت کی حالت میں قرآن پڑھنا کراہت تحر یمی نہیں‘ کراہت تیز یہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان حالتوں میں قرآن پڑھنے اور چھونے سے اجتناببہتر ہے تا ہم پڑھ اور چھولیا جائے تو جائز ہے۔ یہ رائے دولحاظ سے راجح ہے۔ اول یہ کہ جمہور علماء جو مطلق ممانعت کے قائل ہیں ان کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لیے کوئی صحیح حدیث اور واضح نص نہیں ہے۔ جن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے وہ سب ضعیف ہیں ۔ اور ایک آدھ حدیث جو ہے وہ محتمل المعنی ہے اس لیے وہ بھی نص صریح یا دلیل قاطع نہیں بن سکتی۔ اسی طرح امام بخاری، امام ابن حزم اور دیگر ائمہ جو مطلقاً جواز کے قائل ہیں ان کے پاس بھی کوئی واضح دلیل نہیں ہے ان کا استدلال صرف عموم الفاظ پر مبنی ہے اس لیے اس سے مطلق جواز کا مفہوم لینامحل نظر ہے کیونکہ عموم کے باوجود حدیث میں ملتا ہے کہ نبی ﷺنے قضائے حاجت سے فراغت کے بعد جب تک وضو نہیں کر لیا سلام کا جواب دینا پسند نہیں فرمایا۔ دیکھیے : (سنن أبي داود الطهارة حديث:17 ) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ( يذكر الله على كل أحيانه ) کے عموم کے باوجود نبیﷺ نے بعض حالتوں میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے اس سے یقینا کراہت تنز یہی کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ کراہت جواز کے منافی نہیں چنانچہ شیخ البانی ابوداود کی مذکورہ حدیث کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: پیشاب سے فراغت کے بعد نبی ﷺکا سلام کرنے والے کو یہ جواب دینا کہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ بغیر طہارت کے اللہ کا ذکر کروں ۔‘‘ یہ اس بات کی صرصریح دلیل ہے کہ جنبی کے لیے قراءت قرآن مکروہ ہے اس لیے کہ حدیث میں یہ بات سلام کا جواب دینے کے من میں آئی ہے جیسا کہ ابوداود وغیرہ میں صر یح سند سے مروی ہے۔ چنانچہ قرآن تو سلام سے اولیٰ ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔ اور کراہت جواز کے منافی نہیں جیسا کہ معروف ہے اس لیے اس حدیثی کی وجہ سے کراہت والی رائے کا اختیار کرنا ضروری ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو یہ سب اقوال میں سے سب سے زیادہ انصاف پر مبنی رائے ہے۔ دیکھیے :سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني :2/489/رقم 833) آج کل ہر جگہ مدرستہ البنات (بچیوں کے تعلیمی مدارس) عام ہو گئے ہیں حفظ قرآن کے بھی اور دینی علوم کی تدریس کے بھی۔ مطلقا ممانعت اور عدم جواز کے فتوی پرعمل سے ان مدارس میں پڑھنے والی طالبات اور پڑھانے والی استانیوں کو جو مشکلات پیش آ سکتی ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔یہ فقہی اصطلاح میں گویا عموم بلویٰ کی صورت پیدا ہوگئی ہے جس میں فقہاء جواز کا فتوی دیتے ہیں ۔ غالبا اسی لیے عصر حاضر کے بعض ان کبار علماء نے بھی جو عدم جواز کے قائل ہیں مدارس دینیہ میں زیر تعلیم طالبات اور ان میں پڑھانے والی استانیوں کے لیے جواز کا فتوی دیا ہے۔ چنانچہ شیخ محمد بن صالح لی عثیمین تحریر فرماتے ہیں: اس مسئلے میں علماء کا اختلاف جاننے کے بعد ہی بات زیادہ شایان ہے کہ یہ کہا جائےکہ حائضہ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ قرآن کریم زبان سے نہ پڑھے سوائے ضرورت و حاجت کے جیسے کوئی استانی ( معلمہ ) ہے اس کے لیے طالبات کو پڑھانا اس کی ضرورت ہے یا امتحان کے موقع پر خود طالبات کی بھی امتحان دینے کے لیے قرآن کریم کا پڑھنا ایک ضرورت ہے یا اس قسم کی کوئی اور ضرورت ہو (تو حائضہ کے لیے قرآن کریم کا پڑھنا جائز ہے۔ (مجموع فتاوى و رسائل شیخ محمد بن صالح العثيمين:11/311)بنابریں یہ حالات اور ضروریات اس بات کی متقاضی ہیں کہ جواز کے فتوی کوتسلیم کیا جائے بالخصوص جب کہ دلائل کے عموم سے اس کی تائید ہوتی ہے نہ کہ تردید۔ علاوہ ازیں جب کہ ممانعت کے دلائل بھی صحت و استناد کے اعتبار سے محل نظر ہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ حائضہ اور جنبی اگر اجتناب کرسکیں تو بہتر ہے بصورت دیگر جواز سے مفر نہیں ۔ والله أعلم –استحاضہ اور اس سے متعلق احکام و مسائلبالغ ہونے کے بعد ہرعورت کو ہر مہینے چند دن خون آتا ہے جسے حیض کہا جا تا ہے۔ اس کے ضروری مسائل گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکے ہیں ۔ بعض دفع بعض عورتوں کو اس کے علاوہ بھی خون آتا ہے جو حیض کا خون نہیں ہوتا۔ رحم کے اندر ایک عازل نامی رگ ہوتی ہے اس سے یہ خون کسی خرابی کی وجہ سے آتا ہے۔ یہ خون بالکل حیض کی طرح نہیں ہوتا تاہم اس سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ اسی مشابہت کی وجہ سے اس کا کھانا بھی مشکل ہوتا ہے اور کئی پیچیدگیوں کا باعث بھی ہوتا ہے اسی لیے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اس کی بابت لکھا ہے: [فإ ن مسائل الإتحاضة من أشكل أبواب الطهارة] استحاضہ کے مسائل طہارت کے مشکل ترین ابواب میں سے ہیں۔ ‘‘ ( (مجموع فتاوى: 21/22) احادیث میں بھی مختلف عورتوں کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺکی طرف سے اس کی بابت جو احکام بیان ہوئے ہیں ان میں بظاہر کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے لیکن محدثین نے جمع و تطبیق کے ذریعے سے ان کی اس طرح وضاحت فرما دی ہے کہ وہ اختلاف دور ہو جاتا ہے جیسے بعض روایات میں ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرے اور بعض میں ہے کہ ہر نماز کے وقت غسل کیا کرےاور ایک روایت میں ہے کہ وہ ظہر اور عصر کے لیے ایک غسل کرے اور ان کے درمیان جمع صوری کر لے اور مغرب اور عشاءکے لیے ایک غسل کرے اور ان کو جمع کر لے اورصبح کی نماز کے لیے ایک غسل کرے اور ظہر اور عصر کے در میان اور مغرب اور عشاء کے درمیان وضو کرلے۔ جب کہ دیگر روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورت جب حیض سے پاک ہو تو صرف ایک مرتب غسل کر لیا کرے اور پھر ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرے۔ (اورمستحاضہ عورت کے لیے یہی حکم ہے) اس لیے جس حدیث میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم ہے اس سے مراد پورے جسم کا غسل نہیں بلکہ صرف غسل فرج ہے لیکن ہر نماز کے وقت شرم گاہ کو دھوکر وضو کرلیا جائے۔ یا ہر نماز یا دونمازوں کے لیے غسل کا حکم استحباب پرمحمول ہے‘ یعنی واجب نہیں ہے واجب تو صرف ایک مرتبہ ہی ہے جب وہ حیض کے خون سے پاک ہوگی البتہ اگر وہ ہر نماز کے وقت یا دو نمازوں کے لیےغسل کرسکتی ہے تو بہتر ہے فرض و واجب نہیں ہے۔ اس طرح روایات کا ظاہری تعارض دور ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں انھی مختلف روایات میں تطبیق دینے کے نقطہ نظر سے امام ابن تیمیہ نے مستحاضہ عورت کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں جو حسب ذیل ہیں1۔ایک وہ عورت جس کو اپنی عادت کا اچھی طرح پتہ ہے کہ اسے اتنے دن حیض کا خون آتا ہے اور پھربند ہو جاتا ہے۔ اس کو معتادہ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق مقررہ ایام میں (6 یا 7دن) نماز روزے سے اجتناب کرے پھرغسل کر کے نماز روزے کا آغاز کر دے۔ 2۔دوسری وہ عورت ہے جسے اپنے ایام حیض کا اچھی طرح علم نہیں ہے بلوغت کے ساتھ ہی اسے بالاستمرار خون آ رہا ہے ‘تا ہم اسے حیض کے خون کی اچھی طرح پہچان ہے ‘وہ حیض کے خون اور استحاضے کے خون کے درمیان تمیز کرسکتی ہے اسی عورت کو متميزه کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ وہ تمیز اور پہچان کر کے حیض کے ایام میں نماز روزے سے اجتناب کرے اور اس کے بعد غسل کر کےان کا آغاز کر دے۔ 3۔تیری قسم اس عورت کی ہے جونہ معتادہ ہے اور نہ متميزہ بلکہ متحيره ہے لیکن نہ اس کی کوئیمقرره عادت ہے اور نہ وہ حیض اور استحاضے کے خون کے درمیان تمیز ہی کر سکتی ہے ۔ حیض کا خون بالعموم سیاہی مائل گاڑھا اور بدبودار ہوتا ہے جب کہ استحاضے کا خون سرخ غیر بد بودار اور پتلا ہوتاہے لیکن وہ عورت ان کے درمیان تمیز کر کے حیض یا استحا ضے کا فیصل نہیں کر سکتی‘ اس لیے کہ اسے خون یا تو ایک ہی طرح کا آتا ہے یا مختلف انداز کا آتا ہے جس کی اس کو پہچان نہیں ہے۔ اس کا حکم عام عورتوں کی عادات والا ہوگا‘یعنی عورتوں کی غالب اکثریت کو جتنے دن ماہواری آتی ہے اتنے دن حیض کے اور باقی استحاضے کے شمار کرے گی اور اس حساب سے غسل کر کے پاک ہو جائے گی۔ ملخص از مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيميه:21/22،626-631)٭استحاضہ کے احکام : حیض کے ایام کو چھوڑ کر باقی ایام جو استحاضے کے شکار ہوں گے ان میں خونچاہے تھوڑا آئے یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، زیادہ خون آنے کی صورت میں وہ کس کر لگام (کپڑا )باندھ لے یاروئی کی موٹی تہ رکھ لے یا آج کل اس کے لیے جو چیز یں نکلی ہوئی ہیں وہ استعال کرلے۔ ان ایام استحاضہ میں وہ پاک سمجھی جائے گی۔ اس کے لیے نماز پڑھنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا ضروری ہوں گے۔ اسی طرح دیگر تمام احکام میں وہ پاک عورتوں کی طرح ہوگی ۔ خاوند کے ساتھ ہم بستری بھی جائز ہوگی۔ صرف حیض کے ایام میں مذکورہ تمام چیزیں ممنوع ہوں گی۔مستحاضہ کے لیے صرف ایک مسئلہ دوسری پاک عورتوں سے مختلف ہوگا اور وہ یہ ہے کہ وہ حیض سے فارغ ہو کرغسل کر کے جب پاک ہو جائے گی تو ہر نماز کے وقت پہلے شرم گاہ دھوئے گی خون زیادہ آتا ہو تو اس کی روک تھام کے لیے لنگوٹ وغیرہ باندھے گی پھر وضو کر کے ایک وقت کی مکمل نماز پڑھے گی۔ ہر نماز کے وقت اس کے لیے اس طریقے سے وضو کرنا ضروری ہوگا۔٭ لیکوریے‘ جریان اورسلسل البول کا حکم : جس عورت کو لیکور یے یا جر بیان کی زیادہ شکایت ہو حتی کہ ایک نماز پڑھنا بھی اس کے لیے مشکل ہو یا بار بار ہوا خارج ہونے کی باری ہو۔ ایسی عورتیں بھی مستحاضہ کے حکم میں ہیں یعنی ہرنماز کے وقت ایک مرتبہ وضو کرلیا کریں اور اس سے ایک وقت کی پوری نماز پڑھ لیا کریں سلسل البول ‘جریان یا بار بار ہوا خارج ہونے کی بیماری میں مبتلا شخص کے لیے بھی یہی حکم ہے۔نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو بچے کی ولادت کی وجہ سے رحم مادر سے نکلتا ہے۔ یہ خون ولادت( زچگی) کے ساتھ ہی نکلتا ہے یا اس کے فورا بعد يا ولادت سے دو تین دن پہلے در دزہ کے ساتھ‘ اگر خون کے ساتھ دردزہ نہیں ہو گا تو یہ خون بھی نفاس کا نہیں ہوگا۔ نفاس کا یہ خون در اصل وہی خون ہوتا ہے جو حمل کے شہر تے ہیں بالعموم بند ہو جاتا ہے اور بچے کی خوراک کے کام آتا ہے ولادت کے وقت یا اس سے بھی قبل و بعد خون پیٹ میں بچھا ہوا ہوتا ہے وہ باہر نکل آتا ہے۔ ٭ اس خون (نفاس) کا تعلق چونکہ ولادت کے ساتھ ہے تو اس کی ابتداولا دت ہی سے ہوگی ۔ علاوہ ازیں اس ولادت کا اعتبار ہوگا جس میں انسان کی تخلیق نمایاں ہو جاتی ہے۔ یہ مدت حمل کے ٹھہر نے کے بعد کم سے کم اسی (80) دن اور زیادہ سے زیادہ نوے (90) دن ہے جس میں حمل ایک کامل شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اگر کامل شکل اختیار کرنے سے قبل بین ۸۰ دن سے پہلےحمل ساقط ہو جائے یا کر دیا جائے تو وہ نفاس کا خون نہیں بلکہ اسے دم فساد اور استحاضہ سمجھا جائے گا اور نماز روزے کی پابندی اس کے لیے ضروری ہو گی البتہ اگر 80،90 دن کے بعد اس کا حمل ساقط ہو جب کہ اس وقت حمل ایک کامل شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے تو پھر نکلنے والا خون نفاس کا ہوگا اور وہ حیض و نفاس والے احکام کی پابند ہو گی یعنی خون کے جاری رہنے تک وہ نماز روزے سے اور خاوند کے ساتھ ہم بستریکرنے سے اجتناب کرے گی۔ ٭ نفاس کا خون کتنے دن جاری رہتا ہے؟ اس کی کم سے کم کوئی حد مقر نہیں ہے۔ نفاس کا یہ خون جببھی بند ہو جائے عورت غسل کر کے پاک ہو جائے اور نماز روزے کا آغاز کر دے چاہے10،20 دن یا اس سے بھی کم دن میں بند ہو جاۓ البتہ یہ خون جاری رہے تو اس کی زیادہ سے زیادہ حد چالیس دن ہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں: [كانت النفساء على عهدرسول الله و تقعد بعد نفاسها أربعين يوما أو أربعين ليلة ]’’رسول اللہ ا کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن یا چالیس راتیں بیٹھی رہتی تھیں ۔“ (سنن أبي داود الطهارة باب ماجاء في وقت النفساء حديث: 311)یعنی نماز وغیرہ میں پڑھتی تھیں۔ ٭اگر چالیس دن مکمل ہونے کے بعد بھی خون بند نہ ہو تو پھر عورت یہ دیکھے گی کہ یہ خون اس کی سابقہ عادت کے مطابق حیض کا خون تو نہیں؟ اگر رنگت اور عادت کی رو سے وہ حیض کا خون ہو گا تو وہ حیض کا خون ہے بصورت دیگر چالیس دن کے بعد جاری رہنے والا خون استحاضہ تصور ہوگا اور وہ غسل کر کے عبادات کی ادائیگی کا اہتمام کرے گی۔٭ نفاس کے احکام : جب تک عورت نفاس میں رہے گی اس وقت تک حیض والی عورت کی طرح: ٭اسے نماز معاف ہوگی اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے ممنوع ہوں گے ‘البتہ رمضان کے بعدروزوں کی قضا اس کے لیے ضروری ہے۔ ٭حائضہ عورت کی طرح یہ بھی قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر اذکار کرسکتی ہے۔٭خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرسکتی۔ ٭ خاوند اس کے ساتھ ہم بستری (جماع نہیں کرسکتا البتہ مباشرت اور بوس و کنار کر سکتا ہے۔ ٭حائضہ کی طرح نفاس والی عورت بھی غسل کر کے حج اور عمرے کا احرام باندھ سکتی ہے یہ غسل صرف صفائی کے لیے ہے طہارت کے لیے نہیں۔ ٭خون بند ہونے کے بعدغسل کرنا ضروری ہے ‘اس کے بغیر وہ پاک نہیں ہوگی۔ ٭ نفاس کا خون چالیس دن سے پہلے بند ہو جائے اور عورت غسل کر کے نماز روزه شروع کر دے لیکنچالیس دن کے اندر اسے پھر خون آنا شروع ہوجائے تو اکثر علماء کے نزدیک یہ نفاس ہی کا خون ہو گا وہ پھر نماز روزہ چھوڑ دے گی اور اس نے درمیان میں طہر کی حالت سمجھ کر جو نماز یں پڑھیں یا روزے رکھے وہ صحیح سمجھے جائیں گے‘ ان کی قضا کی ضرورت نہیں ہوگی۔ چالیس دن پورے ہونےکے بعد وہ کیا کرے؟ اس کی وضاحت گزر چکی ہے کہ جاری رہنے والا خون حیض کا ہو گایا استحاضے کااس کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔ ٭ اگر کسی عورت کو وضع حمل کے وقت اور اس کے بعد خون نہ آئے تو وہ نا پاک حمل کےساتھ زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ خون تو ضرور ہی آتا ہے اس لیے جب تک وہ غسل نہیں کرے گی پاک نہیں ہوگی، البتہ ایسی عورت جس کو نفاس کا خون نہ آئے تو وہ فورا غسل کر کے پاک ہوجائے اور نماز روزہ شروع کردے خاوند کا اس کے ساتھ ہم بستری کرنا بھی جائز ہوگا۔ ٭اگر بچہ بڑے آپریشن کے ذریعے سے ہو جس میں پیٹ چاک کر کے پر نکال لیا جاتا ہے۔ اسصورت میں نہ بچہ شرم گاہ کے راستے سے باہر آتا ہے اور نہ نفاس کا خون ہی آتا ہے۔ اس عورت کا حکم بھی نفاس والی عورت ہی کا ہے یعنی اگر خون شرم گاہ سے آتا ہے تو وہ نفاس ہی کا خون ہوگا اور اگر خون نہیں آ تا تو وہ پاک ہی سمجھی جائے گی اور پاک عورتوں کی طرح نماز روزے کی ادائیگی اس کے لیے ضروری ہوگی ۔ (فتاوى اللجنة الدائمة:5/12)
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اس کو (کسی چیز سے) کھرچ دو اور پانی ڈال کر ناخنوں سے ملو اور پھر دھو کر اس میں نماز پڑھ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
دیکھیے‘حدیث:294 کے فوائدومسائل
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فاطمہ بنت منذر اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت کرتی ہیں (جو ان کے زیر پرورش تھیں) کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے حیض کے خون کے بارے میں جو کپڑے میں لگ جائے مسئلہ پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے رگڑ دو، اور ناخن سے مل لو، اور پانی سے دھو لو، اور اس میں نماز پڑھو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Asma’ bint AbI Bakr that a woman asked the Messenger of Allah (ﷺ) , about menstrual blood that gets on clothes. He said: “Scratch it, then rub it with water, then sprinkle water over it, and pray in it.” (Sahih)