باب: آدمی کا اپنی کسی ایک بیوی کو دوسری سے زیادہ چاہنا
)
Sunan-nasai:
The Book of the Kind Treatment of Women
(Chapter: When A Man Loves One Of His Wives More Than Another)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3950.
حضرت ام سلمہؓ سے راویت ہے کہ نبیﷺ کی بیویوں نے مجھ سے کہا کہ تم نبیﷺ سے بات کرو کہ لوگ قصداً حضرت عائشہؓ کی باری کے دن آپ کو تحفے بھیجتے ہیں۔ آپ سے کہو کہ حضرت عائشہ کی طرح ہم بھی اس فضیلت کی خواہش مند ہیں۔ میں نے اس بارے میں آپ سے بات کی۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب آپ باری کے لحاظ سے میرے پاس آئے تو میں نے پھر بات کی۔ آپ نے پھر جواب نہ دیا۔ ازواج مطہرات نے مجھ سے پوچھا: آپ نے کیا جواب دیا؟ میں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ وہ کہنے لگیں: تم آپ سے بار بار یہ بات کرتی رہو حتیٰ کہ آپ جواب دیں۔ جب آپ دوبارہ میرے پاس آئے تو میں نے پھر یہی بات کہی۔ آپ نے فرمایا: ”(ام سلمہ!) مجھے عائشہ کے بارے میں ستایا نہ کرو کیونکہ جب میں تم میں سے کسی کے لحاف میں ہوتا ہوں تو عائشہ کے لحاف کے سوا مجھ پر کوئی وحی نہیں اتری۔“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ راوی عبدہ سے مروی یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔
تشریح:
وضاحت: عبدہ سے دو قسم کی روایت ہے: ایک حضرت عائشہؓ کی اور دوسری حضرت ام سلمہؓ کی۔ امام صاحب کے فرمان کے مطابق روایت دونوں طرح درست ہے۔ واللہ أعلم۔ فوائدومسائل: (1) یہ تفصیلی حدیث ہے جس سے سابقہ حدیث کا موقع محل معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں کا قصداً حضرت عائشہؓ کی باری کے دن تحفے بھیجنا دراصل اس بنا پر تھا کہ لوگ جانتے تھے کہ آپ حضرت عائشہؓ کے ساتھ زیادہ محبت فرماتے ہیں اور وہاں تحفے بھیجنے سے آپ زیادہ خوش ہوں گے۔ ازواج مطہرات کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے گھروں میں بھی تحفے آنے چاہییں‘ اس لیے رسول اللہﷺ لوگوں کو حکم دیں کہ وہ ہر جگہ تحفے بھیجیں۔ یا پھر ہم سب سے مساوی محبت فرمائیں تاکہ لوگ سب گھروں میں تحفے بھیجیں۔ (2) ”آپ نے کوئی جواب نہ دیا“ کیونکہ لوگوں کو بذات خود تحفے بھیجنے کے لیے کہنات و شان نبوت کے منافی تھا۔ شرم وحیا مانع تھی۔ اور مساوی محبت ممکن نہ تھی‘ اس لیے کہ یہ غیر اختیاری چیز ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3407
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3950
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3888
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3950
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3960
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
حضرت ام سلمہؓ سے راویت ہے کہ نبیﷺ کی بیویوں نے مجھ سے کہا کہ تم نبیﷺ سے بات کرو کہ لوگ قصداً حضرت عائشہؓ کی باری کے دن آپ کو تحفے بھیجتے ہیں۔ آپ سے کہو کہ حضرت عائشہ کی طرح ہم بھی اس فضیلت کی خواہش مند ہیں۔ میں نے اس بارے میں آپ سے بات کی۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب آپ باری کے لحاظ سے میرے پاس آئے تو میں نے پھر بات کی۔ آپ نے پھر جواب نہ دیا۔ ازواج مطہرات نے مجھ سے پوچھا: آپ نے کیا جواب دیا؟ میں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ وہ کہنے لگیں: تم آپ سے بار بار یہ بات کرتی رہو حتیٰ کہ آپ جواب دیں۔ جب آپ دوبارہ میرے پاس آئے تو میں نے پھر یہی بات کہی۔ آپ نے فرمایا: ”(ام سلمہ!) مجھے عائشہ کے بارے میں ستایا نہ کرو کیونکہ جب میں تم میں سے کسی کے لحاف میں ہوتا ہوں تو عائشہ کے لحاف کے سوا مجھ پر کوئی وحی نہیں اتری۔“ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ راوی عبدہ سے مروی یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: عبدہ سے دو قسم کی روایت ہے: ایک حضرت عائشہؓ کی اور دوسری حضرت ام سلمہؓ کی۔ امام صاحب کے فرمان کے مطابق روایت دونوں طرح درست ہے۔ واللہ أعلم۔ فوائدومسائل: (1) یہ تفصیلی حدیث ہے جس سے سابقہ حدیث کا موقع محل معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں کا قصداً حضرت عائشہؓ کی باری کے دن تحفے بھیجنا دراصل اس بنا پر تھا کہ لوگ جانتے تھے کہ آپ حضرت عائشہؓ کے ساتھ زیادہ محبت فرماتے ہیں اور وہاں تحفے بھیجنے سے آپ زیادہ خوش ہوں گے۔ ازواج مطہرات کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے گھروں میں بھی تحفے آنے چاہییں‘ اس لیے رسول اللہﷺ لوگوں کو حکم دیں کہ وہ ہر جگہ تحفے بھیجیں۔ یا پھر ہم سب سے مساوی محبت فرمائیں تاکہ لوگ سب گھروں میں تحفے بھیجیں۔ (2) ”آپ نے کوئی جواب نہ دیا“ کیونکہ لوگوں کو بذات خود تحفے بھیجنے کے لیے کہنات و شان نبوت کے منافی تھا۔ شرم وحیا مانع تھی۔ اور مساوی محبت ممکن نہ تھی‘ اس لیے کہ یہ غیر اختیاری چیز ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویوں نے ان سے بات کی کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے بات کریں کہ لوگ عائشہ کی باری کے دن ہدیے اور تحفے بھیجتے ہیں اور آپ سے کہیں کہ ہمیں بھی خیر سے اسی طرح محبت ہے جیسے آپ کو عائشہ سے ہے، چنانچہ انہوں نے آپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا، جب ان کی باری کا دن آیا تو انہوں نے پھر بات کی، آپ نے انہیں جواب نہیں دیا۔ انہوں (بیویوں) نے کہا: آپ ﷺ نے تمہیں کوئی جواب دیا؟ وہ بولیں: کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا: تم چھوڑنا مت، جب تک کوئی جواب نہ دے دیں۔ (یا یوں کہا:) جب تک تم دیکھ نہ لو کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں۔ جب پھر ان کی باری آئی تو انہوں نے آپ سے گفتگو کی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”عائشہ کے تعلق سے مجھے اذیت نہ دو، اس لیے کہ عائشہ کے لحاف کے علاوہ تم میں سے کسی عورت کے لحاف میں ہوتے ہوئے میرے پاس وحی نہیں آئی۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: عبدہ سے مروی یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Umm Salamah that the wives of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) asked her to speak to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and tell him, that the people were trying to bring their gifts to him when it was 'Aishah's day, and to say to him: "We love good things as much as 'Aishah does." So she spoke to him, but he did not reply her. When her turn came again, she spoke to him again, but he did not reply her. They said to her: "How did he respond?" She said: "He did not answer me." They said: "Do not leave him alone until he answers you or you comprehend what he says." When her turn came again, she spoke to him and he said: 'Do not bother me about 'Aishah, for the Revelation has never come to me under the blanket of any of you apart from the blanket of 'Aishah.