Sunan-nasai:
The Book of the Kind Treatment of Women
(Chapter: Jealousy)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3958.
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت زینب بنت حجشؓ کے پاس (کچھ زیادہ دیر) ٹھہرتے تھے کہ ان کے پاس شہید پیتے تھے۔ میں نے اور حفصہ نے منصوبہ بنایا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی رسول اللہﷺ تشریف لائیں وہ کہہ دے: میں آپ سے مغافیر کی بوپاتی ہوں۔ آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ پھر آپ ان دونوں میں سے کسی کے گھر تشریف لے گئے تو اس نے یہی کچھ آپ سے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں‘ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے‘ دوبارہ نہیں پیوں گا۔“ پھر آپ پر یہ آیت اتری: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ…﴾ ”اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے۔“ آگے فرمایا: ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ﴾ ”اگر تم توبہ کرو…الحخ۔“ اس سے عائشہ اور حفصہ مراد ہیں۔ اور: ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا﴾ ”جب نبی(ﷺ) نے ایک بیوی سے راز کی بات فرمائی۔“ اس سے مراد آپ کافرمان: ”بلکہ میں نے شہد پیا ہے…الخ“ ہے۔
تشریح:
(1) ”ٹھہرتے تھے“ عصر کی نماز کے بعد رسول اللہﷺ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اپنی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھرو ں میں تشریف لے جایا کرتے تھے کہ انہیں کوئی تکلیف ہو یا ضرورت ہو تو معلوم ہوجائے‘ نیز ہر ایک سے روزانہ رابطہ رہے۔ حضرت زینبؓ کے پاس شہد پینے کی وجہ سے زیادہ دیر لگ جاتی تھی جسے آپ کی دوسری بیویوں (عائشہ اور حفصہؓ) نے محسوس فرمایا اور روکنے کی تدبیر کی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر انہوں نے تدبیر درست نہیں کی جس میں خلاف واقعہ بات کرنا پڑی۔ تبھی تو یہ حکم دیا گیا۔ (2) ”مغافیر“ یہ گوند سی ایک چیز ہے جو گگل جیسے درخت سے نکلتی ہے۔ ا س کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے مگر بوقبیح ہوتی ہے۔ کھانے والے کے منہ سے بعد میں بھی بو محسوس ہوتی ہے۔ اور آپ کو بدبو سے سخت نفرت تھی‘ لہٰذا آپ نے شہد نہ پینے کا فیصلہ فرما لیا۔ لیکن چونکہ ان ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے اس مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہد کا استعمال جاری رکھنے کاحکم فرمایا۔ (3) ”اگر تم توبہ کرو“ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن معصوم نہیں تھیں۔ ان سے یہ غلطی ہوئی‘ پھر انہوں نے توبہ کرلی اور حدیث شریف میں ہے [التّائِبُمِنَالذَّنْبِ كمَن لا ذَنْبَ له ](صحیح الجامع الصغیر‘ حدیث: ۳۰۰۸) توبہ سے گناہ ختم ہوجاتا ہے‘ لہٰذا ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ توبہ کرلینا ان کی فضیلت ہے۔ (4) ”راز کی بات“ آپ نے فرمایا تھا: ”مں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا لیکن تم کسی سے ذکر نہ کرنا“ مگر حضرت حفصہ سے غلطی ہوگئی کہ انہوں نے یہ بات حضرت عائشہؓ سے ذکر کردی۔ اسی لیے انہیں توبہ کرنے کی تلقین کی گئی اور انہوں نے توبہ کرلی۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
3415
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
3958
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
3896
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
3958
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3968
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت زینب بنت حجشؓ کے پاس (کچھ زیادہ دیر) ٹھہرتے تھے کہ ان کے پاس شہید پیتے تھے۔ میں نے اور حفصہ نے منصوبہ بنایا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی رسول اللہﷺ تشریف لائیں وہ کہہ دے: میں آپ سے مغافیر کی بوپاتی ہوں۔ آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ پھر آپ ان دونوں میں سے کسی کے گھر تشریف لے گئے تو اس نے یہی کچھ آپ سے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں‘ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے‘ دوبارہ نہیں پیوں گا۔“ پھر آپ پر یہ آیت اتری: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ…﴾ ”اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال رکھا ہے۔“ آگے فرمایا: ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ﴾ ”اگر تم توبہ کرو…الحخ۔“ اس سے عائشہ اور حفصہ مراد ہیں۔ اور: ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا﴾ ”جب نبی(ﷺ) نے ایک بیوی سے راز کی بات فرمائی۔“ اس سے مراد آپ کافرمان: ”بلکہ میں نے شہد پیا ہے…الخ“ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”ٹھہرتے تھے“ عصر کی نماز کے بعد رسول اللہﷺ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اپنی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھرو ں میں تشریف لے جایا کرتے تھے کہ انہیں کوئی تکلیف ہو یا ضرورت ہو تو معلوم ہوجائے‘ نیز ہر ایک سے روزانہ رابطہ رہے۔ حضرت زینبؓ کے پاس شہد پینے کی وجہ سے زیادہ دیر لگ جاتی تھی جسے آپ کی دوسری بیویوں (عائشہ اور حفصہؓ) نے محسوس فرمایا اور روکنے کی تدبیر کی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر انہوں نے تدبیر درست نہیں کی جس میں خلاف واقعہ بات کرنا پڑی۔ تبھی تو یہ حکم دیا گیا۔ (2) ”مغافیر“ یہ گوند سی ایک چیز ہے جو گگل جیسے درخت سے نکلتی ہے۔ ا س کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے مگر بوقبیح ہوتی ہے۔ کھانے والے کے منہ سے بعد میں بھی بو محسوس ہوتی ہے۔ اور آپ کو بدبو سے سخت نفرت تھی‘ لہٰذا آپ نے شہد نہ پینے کا فیصلہ فرما لیا۔ لیکن چونکہ ان ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے اس مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا تھا‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہد کا استعمال جاری رکھنے کاحکم فرمایا۔ (3) ”اگر تم توبہ کرو“ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن معصوم نہیں تھیں۔ ان سے یہ غلطی ہوئی‘ پھر انہوں نے توبہ کرلی اور حدیث شریف میں ہے [التّائِبُمِنَالذَّنْبِ كمَن لا ذَنْبَ له ](صحیح الجامع الصغیر‘ حدیث: ۳۰۰۸) توبہ سے گناہ ختم ہوجاتا ہے‘ لہٰذا ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ توبہ کرلینا ان کی فضیلت ہے۔ (4) ”راز کی بات“ آپ نے فرمایا تھا: ”مں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا لیکن تم کسی سے ذکر نہ کرنا“ مگر حضرت حفصہ سے غلطی ہوگئی کہ انہوں نے یہ بات حضرت عائشہؓ سے ذکر کردی۔ اسی لیے انہیں توبہ کرنے کی تلقین کی گئی اور انہوں نے توبہ کرلی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین زینب بنت جحش ؓ کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے ہاں شہد پی رہے تھے، میں نے اور حفصہ ؓ نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم ﷺ آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر ۱؎ کی بو آ رہی ہے، آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ آپ ان میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے یہی کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور اب آئندہ نہیں پیوں گا۔“ تو عائشہ اور حفصہ ( ؓ ) کی وجہ سے یہ آیت « يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ» ”اے نبی! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں۔“ (التحریم: ۱) اور «إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ » ”(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے)۔“ (التحریم: ۴) نازل ہوئی اور آپ ﷺ کے اس قول: میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت : «وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا» ”اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی“ ( التحریم : ۳ ) نازل ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah said that the Messenger of Allah used to stay with Zainab bint Jahsh and drink honey at her house. Hafsah and I agreed that if the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) entered upon either of us, she would say: "I perceive the smell of Maghafir (a nasty-smelling gum) on you; have you eaten Maghafir?" He came in to one of them, and she said that to him. He said: "No, rather I drank honey at the house of Zainab bint Jahsh, but I will never do it again." Then the following was revealed: 'O Prophet! Why do you forbid (for yourself) that which Allah has allowed to you.' 'If you two turn in repentance to Allah, (it will be better for you)' about 'Aishah and Hafsah, 'And (remember) when the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) disclosed a matter in confidence to one of his wives' refers to him saying: "No, rather I drank honey.