Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Gravity of the Sin of Shedding Blood)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3999.
حضرت سالم بن ابو الجعد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کر دے، پھر توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے اور راہ راست پر آ جائے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کے لیے توبہ کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے کہ میں نے تمہارے نبیٔ اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر لائے گا۔ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا؟“ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یقینا یہ آیت اللہ تعالیٰ ہی نے اتاری ہے مگر پھر اسے منسوخ فرما دیا۔
تشریح:
(1) بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں کیونکہ اس کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک مخصوص آیت اتر چکی ہے کہ ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾(النساء: ۴:۹۳)”اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ آیت کے ظاہر الفاظ حضرت ابن عباس کی تائید کرتے ہیں، نیز یہ حقوق العباد میں سے سب سے بڑا حق ہے، لہٰذا مقتول کی رضامندی کے بغیر معافی کیسی؟ مگر دیگر اہل علم اس کی توبہ کے بھی قائل ہیں۔ استدلال سورۂ فرقان کی آیت سے ہے: ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾(الفرقان: ۲۵:۷۰)”مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“ اس سے پہلی آیت میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے اور ان میں قتل بھی مذکور ہے۔ حضرت ابن عباس کا موقف یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے، یعنی جو شخص کفر کی حالت میں قتل کر بیٹھے، پھر توبہ کرے اور اسلام قبول کر لے تو اسلام کی برکت سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے جن میں قتل بھی شامل ہے، مگر ایمان لانے کے بعد کسی بے گناہ مومن کو قصداً قتل کرے تو اس کے لیے سورۂ نساء والی آیت ہے جس میں توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مسئلے میں اکیلے ہیں۔ جمہور اہل علم توبہ کے قائل ہیں کیونکہ آخر یہ ہے تو کبیرہ گناہ ہی، کفر تو نہیں، لہٰذا قابل معافی ہے۔ ﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾(النساء: ۴:۴۸) ”باقی رہا اس کا حقوق العباد سے متعلق ہونا، تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو معاف فرمانا چاہے، تو اس کے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے، مثلاً: اسے اپنے فضل سے جنت میں بھیج کر خوش کر دے اور وہ معاف کر دے وغیرہ۔ (2) ”منسوخ فرما دیا“ اس آیت سے مراد سورۂ فرقان والی آیت ہے جس میں توبہ کا ذکر ہے۔ اس کا منسوخ ہونا اس لیے قرین قیاس ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور دوسری آیت سورۂ نساء والی مدنی ہے مگر مندرجہ بالا تطبیق کی صورت میں کسی کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں۔ و اللہ أعلم۔ (نیز دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹ اور حدیث: ۴۰۱۳)
حضرت سالم بن ابو الجعد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کر دے، پھر توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے اور راہ راست پر آ جائے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کے لیے توبہ کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے کہ میں نے تمہارے نبیٔ اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر لائے گا۔ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا؟“ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یقینا یہ آیت اللہ تعالیٰ ہی نے اتاری ہے مگر پھر اسے منسوخ فرما دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں کیونکہ اس کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک مخصوص آیت اتر چکی ہے کہ ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾(النساء: ۴:۹۳)”اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ آیت کے ظاہر الفاظ حضرت ابن عباس کی تائید کرتے ہیں، نیز یہ حقوق العباد میں سے سب سے بڑا حق ہے، لہٰذا مقتول کی رضامندی کے بغیر معافی کیسی؟ مگر دیگر اہل علم اس کی توبہ کے بھی قائل ہیں۔ استدلال سورۂ فرقان کی آیت سے ہے: ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾(الفرقان: ۲۵:۷۰)”مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“ اس سے پہلی آیت میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے اور ان میں قتل بھی مذکور ہے۔ حضرت ابن عباس کا موقف یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے، یعنی جو شخص کفر کی حالت میں قتل کر بیٹھے، پھر توبہ کرے اور اسلام قبول کر لے تو اسلام کی برکت سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے جن میں قتل بھی شامل ہے، مگر ایمان لانے کے بعد کسی بے گناہ مومن کو قصداً قتل کرے تو اس کے لیے سورۂ نساء والی آیت ہے جس میں توبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس مسئلے میں اکیلے ہیں۔ جمہور اہل علم توبہ کے قائل ہیں کیونکہ آخر یہ ہے تو کبیرہ گناہ ہی، کفر تو نہیں، لہٰذا قابل معافی ہے۔ ﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾(النساء: ۴:۴۸) ”باقی رہا اس کا حقوق العباد سے متعلق ہونا، تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو معاف فرمانا چاہے، تو اس کے مقتول کو اپنی طرف سے راضی فرما دے، مثلاً: اسے اپنے فضل سے جنت میں بھیج کر خوش کر دے اور وہ معاف کر دے وغیرہ۔ (2) ”منسوخ فرما دیا“ اس آیت سے مراد سورۂ فرقان والی آیت ہے جس میں توبہ کا ذکر ہے۔ اس کا منسوخ ہونا اس لیے قرین قیاس ہے کہ یہ مکی آیت ہے اور دوسری آیت سورۂ نساء والی مدنی ہے مگر مندرجہ بالا تطبیق کی صورت میں کسی کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں۔ و اللہ أعلم۔ (نیز دیکھئے، حدیث: ۳۹۸۹ اور حدیث: ۴۰۱۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ ابن عباس ؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر توبہ کی، ایمان لایا، اور نیک عمل کئے پھر راہ راست پر آ گیا؟ ابن عباس ؓ نے کہا: اس کی توبہ کہاں ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”وہ قاتل کو پکڑے آئے گا اور اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟“ پھر (ابن عباس ؓ نے) کہا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت («وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا...») کو نازل کیا اور اسے منسوخ نہیں کیا۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ آیت : «وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا» ”جو کوئی مؤمن کو عمداً قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا“ (النساء: ۹۳) مدنی ہے اور بقول ابن عباس مدنی زندگی کے آخری دور میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔ اس لیے یہ اس مکی آیت کی بظاہر ناسخ ہے جو سورۃ الفرقان میں ہے: «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» سے لے کر «إلا من تاب و عمل صالحا» تک ”اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیے ۔ ۔ ۔“ (الفرقان: ۶۸-۷۰) علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مؤمن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور وہ جہنمی ہو گا۔ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مدنی آیت میں «خلود» سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے، ایک نہ ایک دن توحید کی بدولت اسے ضرور جہنم سے خلاصی ہو گی۔ یہ بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ آیت میں زجر و توبیخ مراد ہے۔ یا جو بغیر توبہ مر جائے، یہ ساری تاویلات اس لیے کی گئی ہیں کہ جب کفر و شرک کے مرتکب کی توبہ مقبول ہے تو مومن کو عمداً قتل کرنے والے کی توبہ کیوں قبول نہیں ہو گی، یہی وجہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔ دیکھئیے (صحیح حدیث نمبر: ۲۷۹۹)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim bin Abi Ja'd that: Ibn 'Abbas (RA) was asked about someone who killed a believer deliberately, then he repented, believed and did righteous deeds, and followed true guidance. Ibn 'Abbas (RA) said: "There is no way the repentance could avail him! I heard the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'He (the victim) will come hanging onto his killer, with his jugular veins flowing with blood and saying: O Lord, ask him why he killed me. Then he said: By Allah, Allah revealed it and never abrogated anything of it.