باب: کن جرائم کی وجہ سے مسلمان کا خون بہانا جائز ہے ؟
)
Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: Mentioning What Circumstances Allow Shedding the Blood of a Muslim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4016.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کسی مسلمان آدمی کا، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، خون بہانا جائز نہیں، سوائے تین آدمیوں کے: (ایک) وہ جو اسلام چھوڑ کر کافر بن جائے اور مسلمانوں کی جماعت چھوڑ جائے، اور (دوسرا) وہ جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور (تیسرا) وہ جو کسی جان کو ناحق قتل کرے۔“ اعمش نے کہا: میں نے یہ روایت ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے مجھے اسود عن عائشہ (کی سند) سے اس جیسی روایت بیان کی۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں قتل کا ذکر ہے، قتال کا نہیں۔ قتل سے مراد حد کے طور پر قتل کرنا ہے اور ان تین اصولوں ہی میں جائز ہے، لیکن قتال، یعنی لڑائی تو باغیوں اور منکرین زکاۃ وغیرہ سے بھی لڑی جا سکتی ہے۔ (2) ”کافر بن جائے“ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ حد سے پہلے توبہ کر لے تو اسے معافی مل جائے گی۔ (3) ”جماعت چھوڑ جائے“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ مرتد ہونے کے بعد مسلمانوں ہی میں رہے تو اسے حد نہ لگائی جائے کیونکہ یہ دراصل ارتداد کی تفسیر ہے، یعنی مرتد ہو جانا مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانا ہے۔ احناف کے نزدیک مرتد عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے قید کیا جائے گا لیکن یہ صریح روایات کے خلاف ہے۔ (4) قاتل، خواہ آزاد آدمی ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا، البتہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے قتل کرنے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: ۴۸۳۸ کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (5) ”اس جیسی روایت“ ابراہیم نخعی کے پاس یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی جبکہ اعمش کے پاس عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔ اعمش نے ابراہیم نخعی کو عبداللہ بن مسعود کی روایت سنائی تو ابراہیم نے انہیں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنائی۔ گویا دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔
الحکم التفصیلی:
قلت : ورجاله ثقات غير عمرو بن غالب وثقه ابن حبان ولم يرو عنه غير أبى اسحاق وهو السبيعى ! . والثالثة : عن عبيد بن عمير عنها مرفوعا به إلا أنه قال مكان الثالثة : ( أو رجل يخرج من الأسلام يحارب الله ورسوله فيقتل أو يصلب أو ينفى من الارض ) . أخرجه أبو داود ( 4353 ) والنسائي ( 2 / 169 ) والدار قطني من طريق إبراهيم بن سمان عن عبد العزيز بن رفيع عن عبيد بن عمير . قلت : وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين . وأما حديث عثمان فله طرق : الأولى : عن أبي أمامة بن سهل قال : ( كنا مع عثمان وهو محصور في الدار وكان في الدار مدخل من دخله سمع كلام من على البلاط فدخله عثمان فخرج الينا وهو متغير لونه فقال : إنهم ليتواعدوننى بالقتل آنفا قلنا : يكفيكهم الله يا أمير المؤمنين قال : ولم يقتلونني ؟ ! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا يحل ( الحديث ) فوالله ما زنيت في جاهلية ولا إسلام قط ولا أحببت أن لي بدينى بدلا منذ هداني الله ولا قتلت نفسا فبم يقتلونني ؟ ! ) . أخرجه أبو داود ( 4552 ) والنسائي ( 2 / 166 ) والترمذي ( 2 / 23 - 24 ) وابن ماجه ( 2533 ) وابن الجارود ( 836 ) والطيالسي ( 72 ) وأحمد ( 1 / 6 1 - 62 و 65 ، 70 ) من طريق حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد عن أبي أمامة به . وقال الترمذي : ( حديث حسن ورواه حماد بن سلمة عن يحيى بن سعيد فرفعه وروى يحيى ابن سعيد القطان وغير واحد عن يحيى بن سعيد هذا الحديث فاوقفوه ولم يرفعوه وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعا )
قلت : وإسناده صحيح على شرط الشيخين ولا يضره وقف من أوقفه لاسيما وقد جاء مرفوعا من وجوه أخرى كما يأتي . الثانية : عن عبد الله بن عامر بن ربيعة عنه مثل حديث أبي أمامة قبله . أخرجه النسائي مقرونا بحديث أبي أمامة . وإسناده صحيح أيضا . الثالثة : يرويه مطر الوراق عن نافع عن ابن عمر عنه مرفوعا . أخرجه النسائي ( 2 / 16 9 ) وأحمد ( 1 / 63 ) . ورجاله ثقات غير مطر الوراق ففيه ضعف . الرابعة : عن بسر بن سعيد عنه به . أخرجه النسائي من طريق عبد الرزاق قال : أخبرني ابن جريج ( الأصل ابن جرير وهو خطأ ) عن أبي النضر عنه . قلت : وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين وأبو النضر هو سالم بن أبي أمية المدني . الخامسة : يرويه محمد بن عبد الرحمن بن مجبر عن أبيه عن جده . أن عثمان رض الله عنه أشرف على الذين حصروه فسلم عليهم فلم يردوا عليه فقال عثمان رضى الله عنه : أفي القوم طلحة ؟ قال طلحة : نعم قال : فإنا لله وإنا إليه راجون أسلم على قوم أنت فيهم فلا تردون ؟ قال : قد رددت قال : ما هكذا الرد أسمعك ولا تسمعني يا طلحة أنشدك الله أسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : ) فذكره نحو الطريق الأولى . أخرجه أحمد ( 1 / 163 ) . ومحمد بن عبد الرحمن بن مجبر هذا ضعيف .
حديث عبد الله بن مسعود ) صحيح ، ( حديث عائشة ) صحيح ( حديث عبد الله بن مسعود ) ، ابن ماجة ( 2534 ) // ، الإرواء ( 2196 ) ، السنة لابن أبي عاصم ( 60 ) // ، ( حديث عائشة
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کسی مسلمان آدمی کا، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، خون بہانا جائز نہیں، سوائے تین آدمیوں کے: (ایک) وہ جو اسلام چھوڑ کر کافر بن جائے اور مسلمانوں کی جماعت چھوڑ جائے، اور (دوسرا) وہ جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور (تیسرا) وہ جو کسی جان کو ناحق قتل کرے۔“ اعمش نے کہا: میں نے یہ روایت ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے مجھے اسود عن عائشہ (کی سند) سے اس جیسی روایت بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں قتل کا ذکر ہے، قتال کا نہیں۔ قتل سے مراد حد کے طور پر قتل کرنا ہے اور ان تین اصولوں ہی میں جائز ہے، لیکن قتال، یعنی لڑائی تو باغیوں اور منکرین زکاۃ وغیرہ سے بھی لڑی جا سکتی ہے۔ (2) ”کافر بن جائے“ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے تو اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ حد سے پہلے توبہ کر لے تو اسے معافی مل جائے گی۔ (3) ”جماعت چھوڑ جائے“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ مرتد ہونے کے بعد مسلمانوں ہی میں رہے تو اسے حد نہ لگائی جائے کیونکہ یہ دراصل ارتداد کی تفسیر ہے، یعنی مرتد ہو جانا مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانا ہے۔ احناف کے نزدیک مرتد عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے قید کیا جائے گا لیکن یہ صریح روایات کے خلاف ہے۔ (4) قاتل، خواہ آزاد آدمی ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا، البتہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے قتل کرنے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل حدیث: ۴۸۳۸ کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (5) ”اس جیسی روایت“ ابراہیم نخعی کے پاس یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی جبکہ اعمش کے پاس عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے۔ اعمش نے ابراہیم نخعی کو عبداللہ بن مسعود کی روایت سنائی تو ابراہیم نے انہیں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنائی۔ گویا دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! کسی مسلمان کا خون جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں حلال نہیں، سوائے تین افراد کے: ایک وہ جو (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہو کر اسلام کو ترک کر دے، دوسرا شادی شدہ زانی، اور تیسرا جان کے بدلے جان۔۱؎ اعمش کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے اس جیسی حدیث مجھ سے اسود کے واسطے سے عائشہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اگر کوئی دین اسلام سے مرتد ہو گیا، یا شادی شدہ ہو کر بھی زنا کر لیا، یا کسی کو ناحق قتل کیا ہے، تو اسے ان جرائم کی بنا پر اس کا خون حلال ہو گیا لیکن اس کے خون لینے کا کام اسلامی حکومت کا ہے نہ کہ سماج کا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'By the One besides Whom there is no other god, it is not permissible to shed the blood of a Muslim who bears witness to La ilaha illalla (there is none worthy of worship except Allah) and that I am the Messenger of Allah, except in three cases: One who leaves Islam and splits away from the Jama'ah, a person who has been married and then commits adultery, and a life for a life.