باب: کن جرائم کی وجہ سے مسلمان کا خون بہانا جائز ہے ؟
)
Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: Mentioning What Circumstances Allow Shedding the Blood of a Muslim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4019.
حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ محصور تھے تو ہم ان کے پاس بیٹھے تھے۔ جب ہم (کسی جگہ سے) وہاں جاتے تو بلاط والوں کی باتیں سنتے تھے۔ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اس جگہ گئے، پھر ہماری طرف نکلے اور فرمایا: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے کفایت فرمائے گا۔ آپ نے فرمایا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”کسی مسلمان آدمی کا خون تین (جرائم) میں سے کسی ایک کے بغیر جائز نہیں: (ایک) وہ شخص جس نے اسلام لانے کے بعد کفر کیا۔ (دوسرا) وہ جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا۔ (تیسرا) وہ شخص جس نے کسی کو ناحق قتل کیا۔“ اللہ کی قسم! میں نے نہ کفر کی حالت میں زنا کیا ہے نہ اسلام کی حالت میں۔ اور جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہے، میں نے کبھی سوچا تک نہیں کہ مجھے میرے دین کے علاوہ کوئی اور دین ملے۔ اور میں نے کبھی کسی (مسلمان) کو قتل نہیں کیا۔ تو پھر وہ مجھے کیوں قتل کرتے ہیں؟
تشریح:
(1) ”بلاط“ مسجد نبوی سے باہر ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا جس پر لوگ عموماً بیٹھتے اور باتیں کرتے تھے تاکہ مسجد نبوی کا تقدس بحال رہے۔ اس حدیث میں بلاط والوں سے مراد وہ فسادی لوگ ہیں جو دوسرے علاقوں سے اکٹھے ہو کر خلافت کو مٹانے آئے تھے۔ آخرکار انہوں نے اپنی دھمکیوں پر عمل کر ہی دیا۔ لعنهم اللہ۔ (2) اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظیم الشان فضیلت و منقبت کا بیان ہے۔ وہ اس طرح کہ زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام میں ہمیشہ مکارم اخلاق آپ کی فطرت سلیمہ کا جزو لا ینفک رہے۔ آپ ہمیشہ برائی اور بے حیائی سے دور اور کنارہ کش ہی رہے۔ (3) جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زیادتی اور سرکشی کرتے ہوئے قتل کیا انہوں نے بہت بڑا ظلم کیا کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان کو قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه و أرضاہ۔
حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ محصور تھے تو ہم ان کے پاس بیٹھے تھے۔ جب ہم (کسی جگہ سے) وہاں جاتے تو بلاط والوں کی باتیں سنتے تھے۔ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اس جگہ گئے، پھر ہماری طرف نکلے اور فرمایا: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے کفایت فرمائے گا۔ آپ نے فرمایا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”کسی مسلمان آدمی کا خون تین (جرائم) میں سے کسی ایک کے بغیر جائز نہیں: (ایک) وہ شخص جس نے اسلام لانے کے بعد کفر کیا۔ (دوسرا) وہ جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا۔ (تیسرا) وہ شخص جس نے کسی کو ناحق قتل کیا۔“ اللہ کی قسم! میں نے نہ کفر کی حالت میں زنا کیا ہے نہ اسلام کی حالت میں۔ اور جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہے، میں نے کبھی سوچا تک نہیں کہ مجھے میرے دین کے علاوہ کوئی اور دین ملے۔ اور میں نے کبھی کسی (مسلمان) کو قتل نہیں کیا۔ تو پھر وہ مجھے کیوں قتل کرتے ہیں؟
حدیث حاشیہ:
(1) ”بلاط“ مسجد نبوی سے باہر ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا جس پر لوگ عموماً بیٹھتے اور باتیں کرتے تھے تاکہ مسجد نبوی کا تقدس بحال رہے۔ اس حدیث میں بلاط والوں سے مراد وہ فسادی لوگ ہیں جو دوسرے علاقوں سے اکٹھے ہو کر خلافت کو مٹانے آئے تھے۔ آخرکار انہوں نے اپنی دھمکیوں پر عمل کر ہی دیا۔ لعنهم اللہ۔ (2) اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظیم الشان فضیلت و منقبت کا بیان ہے۔ وہ اس طرح کہ زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام میں ہمیشہ مکارم اخلاق آپ کی فطرت سلیمہ کا جزو لا ینفک رہے۔ آپ ہمیشہ برائی اور بے حیائی سے دور اور کنارہ کش ہی رہے۔ (3) جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زیادتی اور سرکشی کرتے ہوئے قتل کیا انہوں نے بہت بڑا ظلم کیا کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان کو قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوامامہ بن سہل اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عثمان ؓ کے ساتھ تھے اور وہ (اپنے گھر میں) قید تھے۔ ہم جب کسی جگہ سے اندر گھستے تو بلاط۱؎ والوں کی گفتگو سنتے۔ ایک دن عثمان ؓ اندر گئے پھر باہر آئے اور بولے: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا: آپ کے لیے تو اللہ کافی ہے۔ وہ بولے: آخر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنے کے درپہ ہیں؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے: کسی نے اسلام لانے کے بعد کافر و مرتد ہو گیا ہو، یا شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو“، اللہ کی قسم! نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام لانے کے بعد، اور جب سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہوئی میں نے یہ آرزو بھی نہیں کی کہ میرے لیے اس دین کے بجائے کوئی اور دین ہو، اور نہ میں نے ناحق کسی کو قتل کیا، تو آخر یہ مجھے کیوں کر قتل کریں گے؟۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بلاط : مسجد نبوی اور بازار کے درمیان مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا۔ بلاط: دراصل ایسی خالی جگہ کو کہتے ہیں جس میں اینٹ بچھائی گئی ہو۔ اس جگہ اینٹ بچھائی گئی تھی، پھر اس مکان کا یہی نام پڑ گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Umamah bin Sahl and 'Abdullah bin 'Amir bin Rabi'ah said: "We were with 'Uthman (RA) when he was under siege and we could hear what was said from Al-Balat. 'Uthman (RA) came in one day, then he came out, and said: 'They are threatening to kill me.' We said: 'Allah will suffice you against them.' He said: 'Why would they kill me? I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: It is not permissible to shed the blood of a Muslim except in one of three cases: A man who reverts to Kufr after becoming Muslim, or commits adultery after being married, or one who kills a soul unlawfully. By Allah, I did not commit adultery during Jahiliyyah or in Islam, I never wished to follow any other religion since Allah guided me, and I have never killed anyone, so why do they want to kill me?