Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Prohibition of Mutilation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4047.
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں صدقہ کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) مثلہ سے مراد مقتول کے اعضاء (کان، ناک، شرم گاہ وغیرہ) کاٹنا ہے تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ جنگوں میں اس کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا، البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔ (2) بعض لوگوں نے مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کی وجہ سے حدیث عرنیین کو منسوخ کہا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے ظاہراً یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے سابقہ ترجمۃ الباب کے بعد النہی عن المثلۃ کا باب باندھا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے گویا کہ انہی لوگوں کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے لیکن یہ بات درست نہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، بلکہ راجح بات یہ ہے کہ حدیث عرنیین منسوخ نہیں کیونکہ عرنیین کا مثلہ رسول اللہ ﷺ نے ہرگز ہرگز نہیں کیا تھا، ان کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا وہ بطور قصاص ہی تھا۔ چونکہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کے ساتھ اسی طرح کیا تھا، اس لیے قصاصاً ان کے ساتھ بھی اسی طرح کیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، سنن نسائی کی حدیث: ۴۰۴۸ اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی صحیح مسلم کی حدیث: ۱۶۷۱ میں یہ صراحت موجود ہے کہ [إنَّما سمَل النَّبيُّ أعيُنَ أولئكَ لأنَّهم سمَلوا أعيُنَ الرِّعاءِ ]”نبی ﷺ نے ان لوگوں کی آنکھیں محض اس لیے پھوڑیں کہ انہوں نے چرواہوں کے آنکمیں پھوڑی تھیں۔“ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں اور یہودی کی سزا والی احادیث کے بعد یہ روایت یہ اشارہ کرنے کے لیے ہی ذکر کی ہو کہ مندرجہ بالا احادیث اس حدیث کے خلاف نہیں ورنہ صحابہ ضرور تنبیہ فرماتے خصوصاً جبکہ ان تینوں قسم کی احادیث، یعنی حدیث عرنیین، انصاری لڑکی کے قصاص میں یہودی کو قتل کرنے اور مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۴۰۳۹)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه ابن الجارود وابن حبان، وقوى إسناده
الحافظ ابن حجر) .
إسناده: حدثنا محمد بن المثنى: ثنا معاذ بن هشام: حدثني أبي عن قتادة
عن الحسن عن الهياج بن عمران.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الهياج بن عمران
- وهو ابن فُضيْل التميمي-، وثقه ابن سعد وابن حبان (3/283) ، لكن لم يذكروا
راوياً عنه غير الحسن هذا- وهو البصري-؛ فهو مجهول على قواعدهم. وقد أشار
إلى تضعيف هذا التوثيقِ الذهبيَ بقوله في "الكاشف ":
"وُثقَ ".
وصرح بذلك في "الميزان "، فقال:
" وثقه ابن سعد، وقال [علي] بن المديني: مجهول. فصدق علي ".
وأشار إلى هذا الحافظ بقوله في "التقريب ":
"مقبول ".
قلت: وعليه؛ فالإسناد ضعيف، وإن قوّاه الحافظ في "الفتح "، كما كنت
ذكرت في " الإرواء " (7/291) !
لكن ذكرت له هناك بعض الطرق والشواهد، مما يجعل الحديث صحيحاً
لغيره، من ذلك أن الإمام أحمد أخرجه في رواية (4/440) من طريق المبارك عن
الحسن: أخبرني عمران بن حصين قال... فذكره مرفوعاً.
فأسقط (هياجاً) من المسند، وصرح بسماع الحسن من عمران، فاتصل
السند.
لكن المبارك- وهو ابن فَضَالَةَ- مدلس، وقد عنعنه كما قلت ثمة. فأزيد هنا:
أنه قد تابعه هُشَيْم عن حمَيْدٍ عن الحسن قال: ثنا سَمُرَةُ بن جُنْدُبٍ قال...
فذكره أيضاً: أخرجه الطحاوي في "مشكل الآثار" (2/326) .
فصرح بسماعه أيضاً من سمرة، ورجاله ثقات؛ لكنَّ هشيماً مدلس.
وأن له شاهداً آخر عن جرير بن عبد الله البَجَلِيِّ قال:
خطبنا النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على منبر صغير، فحثَّنا على الصدقة، ونهانا عن المثلة.
رواه الطيالسي (665) ، وسنده صحيح على شرط مسلم.
فصح الحديث يقيناً، والحمد لله.
(تنبيه) : ذكر المنذري أن عمران الذي أبق له الغلام: هو ابن حصين!
وهذا خلاف ظاهر سياق المؤلف، بل هو باطل؛ لما في رواية لأحمد
(4/428) :
أن هياج بن عمران أتى عمران بن حصين فقال: إن أبي قد نذر- وفي أخرى:
أن غلاماً لأبيه أبق- فبعثتي إلى عمران بن حصين، قال: فقال: أقرئ أباك
السلام، وأخبره أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان... الحديث.
ورواه ابن الجارود أيضاً (1056) .
فهذا صريح أن الذي أبق له الغلام: هو والد الهياج، وليس عمران بن
حصين، كما هو واضح لا يحتاج إلى بيان، فلعل ذلك سبق قلم من المنذري! والله
أعلم.
*
انتهى بحمد الله وفضله المجلد السابع من
" صحيح سنن أبي داود "،
ويليه إن شاء الله تعالى المجلد الثامن، وأوله:
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں صدقہ کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مثلہ سے مراد مقتول کے اعضاء (کان، ناک، شرم گاہ وغیرہ) کاٹنا ہے تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ جنگوں میں اس کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا، البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔ (2) بعض لوگوں نے مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کی وجہ سے حدیث عرنیین کو منسوخ کہا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے ظاہراً یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے سابقہ ترجمۃ الباب کے بعد النہی عن المثلۃ کا باب باندھا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے گویا کہ انہی لوگوں کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے لیکن یہ بات درست نہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، بلکہ راجح بات یہ ہے کہ حدیث عرنیین منسوخ نہیں کیونکہ عرنیین کا مثلہ رسول اللہ ﷺ نے ہرگز ہرگز نہیں کیا تھا، ان کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا وہ بطور قصاص ہی تھا۔ چونکہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کے ساتھ اسی طرح کیا تھا، اس لیے قصاصاً ان کے ساتھ بھی اسی طرح کیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، سنن نسائی کی حدیث: ۴۰۴۸ اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی صحیح مسلم کی حدیث: ۱۶۷۱ میں یہ صراحت موجود ہے کہ [إنَّما سمَل النَّبيُّ أعيُنَ أولئكَ لأنَّهم سمَلوا أعيُنَ الرِّعاءِ ]”نبی ﷺ نے ان لوگوں کی آنکھیں محض اس لیے پھوڑیں کہ انہوں نے چرواہوں کے آنکمیں پھوڑی تھیں۔“ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں اور یہودی کی سزا والی احادیث کے بعد یہ روایت یہ اشارہ کرنے کے لیے ہی ذکر کی ہو کہ مندرجہ بالا احادیث اس حدیث کے خلاف نہیں ورنہ صحابہ ضرور تنبیہ فرماتے خصوصاً جبکہ ان تینوں قسم کی احادیث، یعنی حدیث عرنیین، انصاری لڑکی کے قصاص میں یہودی کو قتل کرنے اور مثلہ کرنے کی ممانعت والی حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۴۰۳۹)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مردہ کے ہاتھ پاؤں اور کان ناک کاٹ دینے کو مثلہ کہتے ہیں ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas who said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to stress charity in his sermons, and prohibit mutilation.