Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Ruling on Apostates)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4066.
حضرت ابو بردہ اپنے والد محترم (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا۔ پھر اس کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے: اے لوگو! میں تمہاری طرف رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے لیے تکیہ یا گدا رکھا تاکہ وہ اس پر بیٹھیں۔ اتنے میں ایک آدمی لایا گیا جو پہلے یہودی تھا، پھر مسلمان ہو گیا، پھر کافر بن گیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں نہیں بیٹھوں گا حتیٰ کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہے۔ تین مرتبہ فرمایا، پھر جب اسے قتل کر دیا گیا تو آپ بیٹھے۔
تشریح:
(1) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے کہ مرتد اگر اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنا تعارف کرا سکتا ہے، چاہے وہ صاحب مرتبہ ہو یا کوئی عام آدمی ہو جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل یمن کو اپنا تعارف کرایا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علماء، امراء اور مسلمان بھائی ایک دوسرے کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔ (4) اکرام ضیف، یعنی مہمان کی عزت افزائی کرنے پر بھی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، جس طرح کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معزز مہمان حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے تکیہ یا گدا وغیرہ بچھایا تھا۔ (5) حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منکر اور غیر شرعی کام کے انکار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (6) جس شخص پر، اس کے کسی جرم کی وجہ سے، حد واجب ہو چکی ہو اس پر حد قائم کرنا ضروری ہے۔ (7) یہ حدیث دلیل ہے کہ شرعی حد کی تنفیذ، حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے، اس میں سستی، غفلت اور اپنی صوابدید پر معافی دینا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابو بردہ اپنے والد محترم (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا۔ پھر اس کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے: اے لوگو! میں تمہاری طرف رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے لیے تکیہ یا گدا رکھا تاکہ وہ اس پر بیٹھیں۔ اتنے میں ایک آدمی لایا گیا جو پہلے یہودی تھا، پھر مسلمان ہو گیا، پھر کافر بن گیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں نہیں بیٹھوں گا حتیٰ کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہے۔ تین مرتبہ فرمایا، پھر جب اسے قتل کر دیا گیا تو آپ بیٹھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے کہ مرتد اگر اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنا تعارف کرا سکتا ہے، چاہے وہ صاحب مرتبہ ہو یا کوئی عام آدمی ہو جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل یمن کو اپنا تعارف کرایا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علماء، امراء اور مسلمان بھائی ایک دوسرے کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔ (4) اکرام ضیف، یعنی مہمان کی عزت افزائی کرنے پر بھی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، جس طرح کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معزز مہمان حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے تکیہ یا گدا وغیرہ بچھایا تھا۔ (5) حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منکر اور غیر شرعی کام کے انکار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (6) جس شخص پر، اس کے کسی جرم کی وجہ سے، حد واجب ہو چکی ہو اس پر حد قائم کرنا ضروری ہے۔ (7) یہ حدیث دلیل ہے کہ شرعی حد کی تنفیذ، حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے، اس میں سستی، غفلت اور اپنی صوابدید پر معافی دینا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن بھیجا، پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو بھیجا، جب وہ (معاذ) یمن آئے تو کہا: لوگو! میں تمہارے پاس رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں، ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ان کے لیے گاؤ تکیہ رکھ دیا تاکہ وہ اس پر (ٹیک لگا کر) بیٹھیں، پھر ایک شخص ان کے پاس لایا گیا جو یہودی تھا، وہ اسلام قبول کر لینے کے بعد کافر ہو گیا تھا، تو معاذ ؓ نے کہا: میں نہیں بیٹھوں گا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے اسے قتل نہ کر دیا جائے۔ (ایسا) تین بار (کہا)، پھر جب اسے قتل کر دیا گیا تو وہ بیٹھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Burdah bin Abi Musa Al-Ash'ari, from his father: "That the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) sent him to Yemen, then he sent Mu'adh bin Jabal after that. When he arrived he said: 'O people, I am the envoy of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) to you.' Abu Musa gave him a cushion to sit down, then a man was brought who had been a Jew, then he became a Muslim, then he reverted to Kufr. Mu'adh said: 'I will not sit down until he is killed; this is the decree of Allah and His Messenger,' (saying it) three times. When he was killed, he sat down.