Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Repentance of the Apostate)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4068.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی مسلمان ہو گیا، پھر مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ بعد ازاں وہ شرمندہ ہوا تو اس نے اپنی قوم کو پیغام بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھو، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس کی قوم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ فلاں شخص نادم ہے اور اس نے ہمیں پیغام دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ چنانچہ یہ آیت اتری: ﴿كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ … غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ ”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے، جبکہ وہ گواہی دے چکے کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) برحق ہیں اور ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ان لوگوں کی سزا یہی ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ وہ اس (لعنت) میں ہمیشہ رہیں گے، ان سے عذاب نہ تو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔ مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لی، بے شک اللہ تعالیٰ بہت درگزر اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ پھر اسے پیغام بھیجا گیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ مرتد کی توبہ قابل قبول ہے۔ (توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کی سزا قتل ہے)۔ (2) حدیث شریف سے بعض آیاتِ قرآنی کا سبب نزول معلوم ہوتا ہے۔ (3) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ارتداد کی وجہ سے سابقہ تمام اعمالِ صالح باطل اور ضائع ہو جاتے ہیں۔ (4) خالص توبہ کرنے سے تمام برے اعمال اور کفریہ و شرکیہ عقائد مٹ جاتے ہیں، خواہ جس نوعیت ہی کے ہوں۔ (5) یہ حدیث شریف اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی، وافر فضل و کرم اور وسعتِ معافی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت سے عمداً اعراض کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اسے بھی معافی مل جاتی ہے۔ و اللہ أعلم۔
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی مسلمان ہو گیا، پھر مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ بعد ازاں وہ شرمندہ ہوا تو اس نے اپنی قوم کو پیغام بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھو، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس کی قوم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ فلاں شخص نادم ہے اور اس نے ہمیں پیغام دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ چنانچہ یہ آیت اتری: ﴿كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ … غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ ”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے، جبکہ وہ گواہی دے چکے کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) برحق ہیں اور ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ان لوگوں کی سزا یہی ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ وہ اس (لعنت) میں ہمیشہ رہیں گے، ان سے عذاب نہ تو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔ مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لی، بے شک اللہ تعالیٰ بہت درگزر اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ پھر اسے پیغام بھیجا گیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ مرتد کی توبہ قابل قبول ہے۔ (توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کی سزا قتل ہے)۔ (2) حدیث شریف سے بعض آیاتِ قرآنی کا سبب نزول معلوم ہوتا ہے۔ (3) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ارتداد کی وجہ سے سابقہ تمام اعمالِ صالح باطل اور ضائع ہو جاتے ہیں۔ (4) خالص توبہ کرنے سے تمام برے اعمال اور کفریہ و شرکیہ عقائد مٹ جاتے ہیں، خواہ جس نوعیت ہی کے ہوں۔ (5) یہ حدیث شریف اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی، وافر فضل و کرم اور وسعتِ معافی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت سے عمداً اعراض کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اسے بھی معافی مل جاتی ہے۔ و اللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص اسلام لایا پھر وہ مرتد ہو گیا اور مشرکین سے جا ملا۔ اس کے بعد شرمندہ ہوا تو اپنے قبیلہ کو کہلا بھیجا کہ میرے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھو: کیا میرے لیے توبہ ہے؟ اس کے قبیلہ کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بولے: فلاں شخص (اپنے کئے پر) شرمندہ ہے اور اس نے ہم سے کہا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں: کیا اس کی توبہ ہو سکتی ہے؟ اس وقت یہ آیت اتری: «كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ» سے «غَفُورٌ رَحِيمٌ» تک”اللہ اس قوم کو کیوں کر ہدایت دے گا جو ایمان لانے اور نبی اکرم ﷺ کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد کافر ہوئی، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا، ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے تمام فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی، مگر وہ لوگ جنہوں نے اس سے توبہ کر لی اور نیک ہو گئے، پس بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔“ (آل عمران: ۸۶-۸۹) تو آپ نے اسے بلا بھیجا اور وہ اسلام لے آیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "A man from among the Ansar accepted Islam, then he apostatized and went back to Shirk. Then he regretted that, and sent word to his people (saying): 'Ask the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), is there any repentance for me?' His people came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'So and so regrets (what he did), and he has told us to ask you if there is any repentance for him?' Then the Verses: 'How shall Allah guide a people who disbelieved after their Belief up to His saying: Verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful' was revealed. So he sent word to him, and he accepted Islam.