Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4133.
حضرت یزید بن ہرمز سے روایت ہے نجدہ حروری (خارجی) جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شورش کے دوران میں آیا تو اس نے حضرت ابن عباس ؓ کو پیغام نامہ بھیجا اور پوچھا کہ آپ کی رائے میں (خمس میں سے) قرابت داروں کا حصہ کسے ملے گا؟ انہوں نے فرمایا: ہمیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کے رشتے داروں کو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ حصہ ان (بنی ہاشم اور بنی مطلب) کے لیے تقسیم کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی ہمیں (خمس میں سے) کچھ مال پیش کیا جسے ہم نے اپنے حق سے کم سمجھا تو ہم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں پیش کش کی تھی کہ وہ ان میں سے نکاح کرنے والے کی مدد کریں گے۔ ان کے مقروض کا قرض ادا کریں گے اور ان سے محتاج لوگوں کو عطیات دیں گے۔ اس سے زائد دینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ اس میں مال فے کی تقسیم کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خط کتابت کے ذریعے سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نجدہ حروری نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف ایک تحریر لکھ کر چند ایک مسائل کا جواب معلوم کیا تھا۔ صحیح مسلم میں اس بات کی صراحت ہے کہ اس نے پانچ سوالوں کا جواب طلب کیا تھا۔ دیکھئے: (صحیح مسلم، الجهاد، باب النساء الغازیات یرضخ لهن و لا یسهم…، حدیث: ۱۸۱۲) (3) مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی مصلحت ہو یا کسی قسم کے فساد کا خطرہ ہو تو عالم شخص کو اہل بدعت کو بھی فتویٰ دے دینا چاہیے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نجدہ حروری کو تحریری جواب لکھ بھیجا تھا۔ (4) ”حروری“ یہ نسبت ہے بستی ”حروراء“ کی طرف۔ یہاں خارجیوں کا اولین اجتماع ہوا تھا۔ اس نسبت سے ہر خارجی کو حروری کہا جاتا ہے، چاہے وہ حروراء بستی سے تعلق نہ بھی رکھتا ہو۔ اس حوالے سے دیکھئے: حدیث: ۸،۷،۴۱۰۷) (5) ”قرابت داروں کا حصہ“ قرآن مجید میں غنیمت کے علاوہ خمس کے مصارف میں ”قرابت داروں“ کا ذکر ہے۔ اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ اس سے رسول اللہ ﷺ کے رشتے دار مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ امام شافعی اور دیگر اکثر اہل علم کے نزدیک قرابت داروں سے مراد بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حاکم وقت کے رشتے دار مراد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنے دور میں حاکم بھی تھے۔ اس لحاظ سے آپ کے رشتہ دار مَصْرَفْ تھے۔ یہ نہیں کہ اب بھی (آپ کی وفات سے قیامت تک) آل رسول خمس کا مصرف ہیں۔ یہ قول معقول ہے مگر کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ آل رسول کے لیے زکاۃ حرام ہے، خواہ غریب ہی ہوں، اس لیے زکاۃ کے عوض ان کا حصہ خمس میں رکھ دیا گیا لیکن اس صورت میں صرف زکاۃ کے مستحق آل رسول ہی خمس کا مصرف ہوں گے نہ کہ عام اہل بیت۔ معلوم ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہی موقف تھا جیسا کہ مندرجہ بالا روایت کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ باقی رہے حاکم وقت اور اس کے رشتہ دار تو وہ کوئی حصہ دار نہیں بلکہ آج کل کے رواج کے مطابق حاکم وقت کی مناسب تنخواہ مقرر کی جائے گی جیسا کہ خلفائے راشدین کے دور میں ہوا۔ اس تنخواہ کو وہ خود خرچ کرے گا او رشتے داروں کو بھی اس سے دے گا جس طرح رشتے داروں میں عام لین دین ہوتا ہے۔ ان کی کوئی خصوصی حیثیت نہیں۔ (6) ”حق سے کم سمجھا“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کا خیال تھا کہ ہمارا بیت المال میں خصوصی حق ہے۔ بعض کے نزدیک پورا خمس اور بعض کے نزدیک خمس کا خمس (خمس سے مراد مال غنیمت کا پانچواں حصہ ہے جو بیت المال میں جمع ہوتا ہے) جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خیال تھا کہ اہل بیت میں سے فقیر اور حاجت مند لوگ زکاۃ کی بجائے بیت المال سے ضرورت کے مطابق مال لے سکتے ہیں۔ اہل بیت کا کوئی مستقل حصہ مقرر نہیں، البتہ حاکم عام شہریوں کی طرح اہل بیت کو بھی عطیات دے سکتا ہے بلکہ ان کو زیادہ بھی دے سکتا ہے کیونکہ ان کی شان بلند ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صدقہ النبی (ﷺ) والی زمین عارضی طور پر حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زیر نگرانی دے دی تھی کہ وہ اس کی آمدن سے اپنی اور دیگر اہل بیت کی ضروریات پوری کریں۔ باقی آمدن بیت المال کی ہو گی اور زمین بھی حکومت ہی کی رہے گی۔ (7) آج کل تو یہ مسئلہ خود بخود طے ہو چکا ہے، نہ مال غنیمت آتا ہے اور نہ خمس ہی کی صورت بنتی ہے۔ صرف بیت المال، یعنی سرکاری خزانہ ہوتا ہے جس سے حاجت مند اور فقیر لوگوں کی حاجات پوری کی جائیں گی۔ وہ اہل بیت سے ہوں یا عام مسلمان۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے تھی اور یہی درست ہے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَ أَرْضَاهُ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4144
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4144
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4138
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت یزید بن ہرمز سے روایت ہے نجدہ حروری (خارجی) جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شورش کے دوران میں آیا تو اس نے حضرت ابن عباس ؓ کو پیغام نامہ بھیجا اور پوچھا کہ آپ کی رائے میں (خمس میں سے) قرابت داروں کا حصہ کسے ملے گا؟ انہوں نے فرمایا: ہمیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کے رشتے داروں کو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ حصہ ان (بنی ہاشم اور بنی مطلب) کے لیے تقسیم کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی ہمیں (خمس میں سے) کچھ مال پیش کیا جسے ہم نے اپنے حق سے کم سمجھا تو ہم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں پیش کش کی تھی کہ وہ ان میں سے نکاح کرنے والے کی مدد کریں گے۔ ان کے مقروض کا قرض ادا کریں گے اور ان سے محتاج لوگوں کو عطیات دیں گے۔ اس سے زائد دینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ اس میں مال فے کی تقسیم کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خط کتابت کے ذریعے سے علم حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نجدہ حروری نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف ایک تحریر لکھ کر چند ایک مسائل کا جواب معلوم کیا تھا۔ صحیح مسلم میں اس بات کی صراحت ہے کہ اس نے پانچ سوالوں کا جواب طلب کیا تھا۔ دیکھئے: (صحیح مسلم، الجهاد، باب النساء الغازیات یرضخ لهن و لا یسهم…، حدیث: ۱۸۱۲) (3) مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی مصلحت ہو یا کسی قسم کے فساد کا خطرہ ہو تو عالم شخص کو اہل بدعت کو بھی فتویٰ دے دینا چاہیے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نجدہ حروری کو تحریری جواب لکھ بھیجا تھا۔ (4) ”حروری“ یہ نسبت ہے بستی ”حروراء“ کی طرف۔ یہاں خارجیوں کا اولین اجتماع ہوا تھا۔ اس نسبت سے ہر خارجی کو حروری کہا جاتا ہے، چاہے وہ حروراء بستی سے تعلق نہ بھی رکھتا ہو۔ اس حوالے سے دیکھئے: حدیث: ۸،۷،۴۱۰۷) (5) ”قرابت داروں کا حصہ“ قرآن مجید میں غنیمت کے علاوہ خمس کے مصارف میں ”قرابت داروں“ کا ذکر ہے۔ اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ اس سے رسول اللہ ﷺ کے رشتے دار مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ امام شافعی اور دیگر اکثر اہل علم کے نزدیک قرابت داروں سے مراد بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حاکم وقت کے رشتے دار مراد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنے دور میں حاکم بھی تھے۔ اس لحاظ سے آپ کے رشتہ دار مَصْرَفْ تھے۔ یہ نہیں کہ اب بھی (آپ کی وفات سے قیامت تک) آل رسول خمس کا مصرف ہیں۔ یہ قول معقول ہے مگر کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ آل رسول کے لیے زکاۃ حرام ہے، خواہ غریب ہی ہوں، اس لیے زکاۃ کے عوض ان کا حصہ خمس میں رکھ دیا گیا لیکن اس صورت میں صرف زکاۃ کے مستحق آل رسول ہی خمس کا مصرف ہوں گے نہ کہ عام اہل بیت۔ معلوم ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہی موقف تھا جیسا کہ مندرجہ بالا روایت کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ باقی رہے حاکم وقت اور اس کے رشتہ دار تو وہ کوئی حصہ دار نہیں بلکہ آج کل کے رواج کے مطابق حاکم وقت کی مناسب تنخواہ مقرر کی جائے گی جیسا کہ خلفائے راشدین کے دور میں ہوا۔ اس تنخواہ کو وہ خود خرچ کرے گا او رشتے داروں کو بھی اس سے دے گا جس طرح رشتے داروں میں عام لین دین ہوتا ہے۔ ان کی کوئی خصوصی حیثیت نہیں۔ (6) ”حق سے کم سمجھا“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کا خیال تھا کہ ہمارا بیت المال میں خصوصی حق ہے۔ بعض کے نزدیک پورا خمس اور بعض کے نزدیک خمس کا خمس (خمس سے مراد مال غنیمت کا پانچواں حصہ ہے جو بیت المال میں جمع ہوتا ہے) جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خیال تھا کہ اہل بیت میں سے فقیر اور حاجت مند لوگ زکاۃ کی بجائے بیت المال سے ضرورت کے مطابق مال لے سکتے ہیں۔ اہل بیت کا کوئی مستقل حصہ مقرر نہیں، البتہ حاکم عام شہریوں کی طرح اہل بیت کو بھی عطیات دے سکتا ہے بلکہ ان کو زیادہ بھی دے سکتا ہے کیونکہ ان کی شان بلند ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صدقہ النبی (ﷺ) والی زمین عارضی طور پر حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زیر نگرانی دے دی تھی کہ وہ اس کی آمدن سے اپنی اور دیگر اہل بیت کی ضروریات پوری کریں۔ باقی آمدن بیت المال کی ہو گی اور زمین بھی حکومت ہی کی رہے گی۔ (7) آج کل تو یہ مسئلہ خود بخود طے ہو چکا ہے، نہ مال غنیمت آتا ہے اور نہ خمس ہی کی صورت بنتی ہے۔ صرف بیت المال، یعنی سرکاری خزانہ ہوتا ہے جس سے حاجت مند اور فقیر لوگوں کی حاجات پوری کی جائیں گی۔ وہ اہل بیت سے ہوں یا عام مسلمان۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے تھی اور یہی درست ہے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَ أَرْضَاهُ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لیے) نکلا ۲؎ تو اس نے ابن عباس ؓ کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ (مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ (اب) کس کو ملنا چاہیئے، ۳؎ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر ؓ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ ”غنیمت“ میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔ ۲؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔ ۳؎ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟“ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیئے، جب کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Yazid bin Hurmuz that: when Najdah Al-Haruriyyah rebelled during the Fitnah of Ibn Zubayr, he sent word to Ibn 'Abbas asking him about the share of the relatives (of the Messenger of Allah) -to whom did he think it should be given? He replied: "It is for us, because of our blood ties to the Messenger of Allah allocated it to them, but 'Umar offered us something we thought was less than what was our due, and we refused to accept it. What he offered to them who wanted to get married, and to help the debtors pay off their debts, and he gave to their indigent. But he refused to give them more than that.