Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4137.
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قرابت داری کا حصہ بنوہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم فرما دیا تو میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! بنو ہاشم کی فضیلت کا تو ہم انکار نہیں کرتے کیونکہ وہ آپ کا خاندان ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان میں سے بنایا ہے لیکن بنو مطلب کو آپ نے دیا اور ہمیں نہیں دیا، حالانکہ درحقیقت آپ سے ہمارا اور ان کا تعلق ایک جیسا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ دور جاہلیت میں بھی مجھ سے جدا نہیں رہے اور اسلام میں بھی ہمارے ساتھ رہے، لہٰذا بنوہاشم اور بنو مطلب ایک چیز ہیں۔“ (یہ فرماتے ہوئے) آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4148
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4148
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4142
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قرابت داری کا حصہ بنوہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم فرما دیا تو میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! بنو ہاشم کی فضیلت کا تو ہم انکار نہیں کرتے کیونکہ وہ آپ کا خاندان ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان میں سے بنایا ہے لیکن بنو مطلب کو آپ نے دیا اور ہمیں نہیں دیا، حالانکہ درحقیقت آپ سے ہمارا اور ان کا تعلق ایک جیسا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ دور جاہلیت میں بھی مجھ سے جدا نہیں رہے اور اسلام میں بھی ہمارے ساتھ رہے، لہٰذا بنوہاشم اور بنو مطلب ایک چیز ہیں۔“ (یہ فرماتے ہوئے) آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جبیر بن مطعم ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان ؓ آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لیے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انہوں نے مجھے نہ زمانہ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں ، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں“، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں.
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jubair bin Mut'im said: "When the Messenger of Allah distributed the share for his relatives to Banu Hashim and BanuA-Muttalib, I came to himwith 'Uthman bin 'Affan and we said: 'O Messenger of Allah, no one denies the virtue of Banu Hashim because of the relationship between you and them. But how come you have given (a share) to Banu Al-Muttalib and not to us? They and we share the same degree of relationship to you. 'The Messenger of Allah said: "They did not abandon me during the Jahiliyyah or in Islam. Banu Hashim and Banu Al-Muttalib are the same thing, and he interlaced his fingers.