Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4140.
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر کا مال ان مالوں میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو جنگ کے بغیر عطا فرمایا تھا، مسملانوں نے اس کے حصول کے لیے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (لڑائی کے بغیر ہی حاصل ہوا)۔ آپ اس میں سے اپنے لیے (اور اپنے گھر والوں کے لیے) ایک سال کی خوراک رکھ لیتے تھے اور باقی مال کو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے گھوڑے اور اسلحہ خریدنے میں خرچ فرما دیتے تھے۔
تشریح:
(1) بنو نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جس کو ان کی بدعہدی کی سزا میں مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنا سامان وغیرہ تو ساتھ لے گئے تھے، البتہ ان کی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی تھیں لیکن وہ بیت المال کی ملکیت تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات چونکہ بیت المال کے ذمے تھے، اس لیے آپ اپنے اہل بیت کی سالانہ خوراک اس میں سے رکھ لیتے تھے اور باقی مال مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ فرماتے تھے۔ (2) جائز اسباب کا حصول توکل کے خلاف نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جنگی اسلحہ اور ہتھیار وغیرہ خریدا کرتے تھے، نیز اسی طرح اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر رکھنا بھی توکل علی اللہ کے منافی نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4151
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4151
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4145
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر کا مال ان مالوں میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو جنگ کے بغیر عطا فرمایا تھا، مسملانوں نے اس کے حصول کے لیے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (لڑائی کے بغیر ہی حاصل ہوا)۔ آپ اس میں سے اپنے لیے (اور اپنے گھر والوں کے لیے) ایک سال کی خوراک رکھ لیتے تھے اور باقی مال کو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے گھوڑے اور اسلحہ خریدنے میں خرچ فرما دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بنو نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جس کو ان کی بدعہدی کی سزا میں مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنا سامان وغیرہ تو ساتھ لے گئے تھے، البتہ ان کی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی تھیں لیکن وہ بیت المال کی ملکیت تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات چونکہ بیت المال کے ذمے تھے، اس لیے آپ اپنے اہل بیت کی سالانہ خوراک اس میں سے رکھ لیتے تھے اور باقی مال مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ فرماتے تھے۔ (2) جائز اسباب کا حصول توکل کے خلاف نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جنگی اسلحہ اور ہتھیار وغیرہ خریدا کرتے تھے، نیز اسی طرح اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر رکھنا بھی توکل علی اللہ کے منافی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر ؓ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مال غنیمت مال فی میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لیے صرف کرتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Umar said: "The wealth of Banu An-Nadir was among the Fay' that Allah bestowed upon His Messenger, in cases where the Muslims did not go out on and expedition with horses and camels. From it he kept for himself food for one year, and what was left he spent on cavalry and weapons equipment for the cause of Allah.