باب: اطاعت کی بیعت کرنا اگرچہ دوسروں کو ترجیح دی جائے
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Pledging Obedience Even When Other Are Preferred Over Us)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4154.
حضرت عبادہ بن ولید کے دادا محترم (حضرت عبادہ بن صامتؓ) سے روایت ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کی کہ ہم اپنی تنگی وآسانی اور اپنی پسند و ناپسند میں (ہر حال میں) آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے۔ اور ہم صاحبان اقتدار سے ان کا اقتدار نہیں چھینیں گے۔ اور ہم جہاں کہیں بھی ہوں‘حق بات پر قائم رہیں گے۔ اور ہم اﷲ تعالیٰ(کی اطاعت) کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ شعبہ نے کہا: حیث کان کے الفاظ سیارنے ذکر نہیں کیے‘ یحییٰ نے ذکر کیے ہیں۔ (سیارنے صرف وان نقول بالحق کے الفاظ کہے ہیں)۔ شعبہ نے کہا: اگر میں نے اس میں کچھ زیادتی کی ہے تو وہ سیار یا یحییٰ کی طرف سے ہے۔
تشریح:
”ترجیح دی جائے“ ظاہر ہے سب لوگوں کو عہدے نہیں دیے جاسکتے‘ خواہ اہل ہی ہوں‘ پھرا امیر سے غلطی بھی ممکن ہے کہ وہ ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق سلوک نہ کرسکے۔ ایسی صورت میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں کو مجھ پر ترجیح دی گئی ہے اور مجھ سے میرے مقام ومرتبے کے مطابق سلوک نہیں کیا گیا۔ لیکن اتنی بات سے امیر سے بغاوت یا اس کی نافرمائی کو جائزقرار نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ایسے حالات میں بھی امیر سے وفادار رہنا ہوگا اور اس کی اطاعت کرنا ہوگی ورنہ وہ شرعاََ سزا کا حق دار ہوگا۔ جس رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد امارت وحکومت قریش مہاجرین ہی کو ملی‘ انصار محروم رہے مگر آفرین ہے ان مخلص ترین لوگوں پر کہ انھوں نے اپنے شہر میں اور اکثریت میں ہونے کے باوجود قریش کی امارت کو دل وجان سے تسلیم کیا اور کبھی مخالفت کا نہیں سوچا۔ رضي الله عنهم و أرضاهم
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4169
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4154
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4084
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4154
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4165
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4165
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4159
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت عبادہ بن ولید کے دادا محترم (حضرت عبادہ بن صامتؓ) سے روایت ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کی کہ ہم اپنی تنگی وآسانی اور اپنی پسند و ناپسند میں (ہر حال میں) آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے۔ اور ہم صاحبان اقتدار سے ان کا اقتدار نہیں چھینیں گے۔ اور ہم جہاں کہیں بھی ہوں‘حق بات پر قائم رہیں گے۔ اور ہم اﷲ تعالیٰ(کی اطاعت) کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ شعبہ نے کہا: حیث کان کے الفاظ سیارنے ذکر نہیں کیے‘ یحییٰ نے ذکر کیے ہیں۔ (سیارنے صرف وان نقول بالحق کے الفاظ کہے ہیں)۔ شعبہ نے کہا: اگر میں نے اس میں کچھ زیادتی کی ہے تو وہ سیار یا یحییٰ کی طرف سے ہے۔
حدیث حاشیہ:
”ترجیح دی جائے“ ظاہر ہے سب لوگوں کو عہدے نہیں دیے جاسکتے‘ خواہ اہل ہی ہوں‘ پھرا امیر سے غلطی بھی ممکن ہے کہ وہ ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق سلوک نہ کرسکے۔ ایسی صورت میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں کو مجھ پر ترجیح دی گئی ہے اور مجھ سے میرے مقام ومرتبے کے مطابق سلوک نہیں کیا گیا۔ لیکن اتنی بات سے امیر سے بغاوت یا اس کی نافرمائی کو جائزقرار نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ایسے حالات میں بھی امیر سے وفادار رہنا ہوگا اور اس کی اطاعت کرنا ہوگی ورنہ وہ شرعاََ سزا کا حق دار ہوگا۔ جس رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد امارت وحکومت قریش مہاجرین ہی کو ملی‘ انصار محروم رہے مگر آفرین ہے ان مخلص ترین لوگوں پر کہ انھوں نے اپنے شہر میں اور اکثریت میں ہونے کے باوجود قریش کی امارت کو دل وجان سے تسلیم کیا اور کبھی مخالفت کا نہیں سوچا۔ رضي الله عنهم و أرضاهم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی حالت میں سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم حق پر قائم رہیں گے جہاں بھی ہو۔ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ سیار نے «حیث کان» کا لفظ ذکر نہیں کیا اور یحییٰ نے ذکر کیا۔ شعبہ کہتے ہیں: اگر میں اس میں کوئی لفظ زائد کروں تو وہ سیار سے مروی ہو گا یا یحییٰ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Shu'bah, from Sayyar and Yahya bin Sa'eed that they heard 'Ubadah bin Al-Walid narrating from his father. Sayyar said: "From his father," and Yahya said: "From his father," from his grandfather, whom said: 'We pledged to the Messenger of Allah to hear and obey during our hardship and our ease, when we felt energetic and when we felt tired, and when others are preferred over us, that we would not contend with the orders of whomever was entrusted with it, that we would stand firm for the truth wherever it may be, and that we would not fear the blame of any blamer for the sake of Allah." (Sahih) Shu'bah said: "Sayyar did not mention this statement: 'Wherever it may be' while Yahya mentioned it." Shu'bah said: "If I have added anything to it, then it is from Sayyar or from Yahya.