Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Pledging To Emigrate (Al-Hijrah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4163.
حضرت عبداﷲ بن عمروؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے آیا ہوں جبکہ میں اپنے ماں باپ کو روتا چھوڑ آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کے پاس واپس جا اور جیسے تو نے انھیں رلایا ہے اسی طرح انھیں ہنسا۔“
تشریح:
(1) ہجرت پر بیعت لینا مشروع نہیں رہا‘ ہاں دار کفر سے دار اسلام کی طرف ہجرت باقی ہے لیکن بغیر بیعت کے۔ (2) ترجمۃ الباب یعنی ہجرت پر بیعت کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت پر بیعت کی نیت سے آنے والے شخص سے رسول اللہ ﷺ نے،اس کے والدین کی عدم رضا مندی کی وجہ سے بیعت نہیں لی۔ اگر اس کے والدین کا مسئلہ نہ ہوتا تو آپ بیعت لے لیتے۔ واللہ أعلم (3) والدین کی نافرمانی اور ان کوایذا پہنچانا حرام اور ناجائز ہے۔ اسی طرح اگر جہاد کی فرضیت کے حالات بھی نہ ہوں تو اجازت کے بغیر جانا درست نہیں۔ (4) ہر دار کفر سے ہجرت کرنا فرض نہیں اگر قبضہ کافروں کا ہومگر وہ دینی امور میں رکاوٹ نہ ڈالتے ہوں تو وہاں سے ہجرت فرض نہیں جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں کو خود حبشہ بھیجا‘حالانکہ وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهو كما قالا فإن سفيان وهو الثوري سمع من عطاء قبل اختلاطه . والرابعة : عن شعبة بن يعلى بن عطاء عن أبيه قال : أظنه عن عبد الله بن عمرو قال : شعبة شك - : فذكره نحوه إلا أنه قال : " نعم قال : أمي قال : انطلق فبرها . قال : فانطلق يتخلل الركاب "
أخرجه أحمد ( 2 / 197 ) . قلت : وهذا إسناد حسن في الشواهد والمتابعات رجاله ثقات رجال مسلم غير عطاء والد يعلى وهو العامري فإنه مجهول . وللحديث شواهد من حديث معاوية بن جاهمة وأبي سعيد الخدري . أما حديث معاوية فيرويه ابن جريج قال : أخبرني محمد بن طلحة وهو ابن عبد الله بن عبد الرحمن 286 عن أبيه طلحة عنه بلفظ : " أن جاهمة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله أردت أن أغزو وقد جئت استشيرك ؟ فقال : هل لك من أم ؟ قال : نعم قال : فالزمها فإن الجنة تحت رجليها ) . أخرجه النسائي والحاكم ( 2 / 104 و 4 / 151 ) وأحمد ( 3 / 429 ) وابن أبي شيبة أيضا في " مسنده " ( 2 / 7 / 2 ) وقال الحاكم : " صحيح الإسناد " . ووافقه الذهبي . قلت : كذا قالا وطلحة بن عبد الله لم يوثقه غير ابن حبان لكن روى عنه جماعة فهو حسن الحديث إن شاء الله وفي " التقريب " : " مقبول " . وتابعه محمد بن إسحاق بن طلحة به . أخرجه ابن ماجه ( 2781 ) . وأما حديث أبي سعيد فيرويه دراج أبو السمح عن أبي الهيثم عنه . - إرواء الغليل - محمد ناصر الألباني ج 5 ص 21 : إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن فقال : هل لك أحد باليمن ؟ قال : أبواي قال : أذنا لك ؟ قال : لا قال : ارجع إليهما فاستأذنهما فإن آذنا لك فجاهد وإلا فبرهما " . أخرجه أبو داود ( 3530 ) والحاكم ( 2 / 103 - 104 ) وكذا ابن الجارود ( 1035 ) وابن حبان ( 1622 ) وأحمد ( 3 / 75 - 76 ) وقال الحاكم : " صحيح الإسناد " . ورده الذهبي بقوله : " قلت : دراج واه " فأصاب . لكن الحديث بمجموع طرقه صحيح
والله أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4174
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4174
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4168
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمروؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے آیا ہوں جبکہ میں اپنے ماں باپ کو روتا چھوڑ آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کے پاس واپس جا اور جیسے تو نے انھیں رلایا ہے اسی طرح انھیں ہنسا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ہجرت پر بیعت لینا مشروع نہیں رہا‘ ہاں دار کفر سے دار اسلام کی طرف ہجرت باقی ہے لیکن بغیر بیعت کے۔ (2) ترجمۃ الباب یعنی ہجرت پر بیعت کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت پر بیعت کی نیت سے آنے والے شخص سے رسول اللہ ﷺ نے،اس کے والدین کی عدم رضا مندی کی وجہ سے بیعت نہیں لی۔ اگر اس کے والدین کا مسئلہ نہ ہوتا تو آپ بیعت لے لیتے۔ واللہ أعلم (3) والدین کی نافرمانی اور ان کوایذا پہنچانا حرام اور ناجائز ہے۔ اسی طرح اگر جہاد کی فرضیت کے حالات بھی نہ ہوں تو اجازت کے بغیر جانا درست نہیں۔ (4) ہر دار کفر سے ہجرت کرنا فرض نہیں اگر قبضہ کافروں کا ہومگر وہ دینی امور میں رکاوٹ نہ ڈالتے ہوں تو وہاں سے ہجرت فرض نہیں جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں کو خود حبشہ بھیجا‘حالانکہ وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا: میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ہجرت پر بیعت کروں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے چھوڑا ہے، آپ نے فرمایا: ”تم ان کے پاس واپس جاؤ اور انہیں جس طرح تم نے رلایا ہے اسی طرح ہنساؤ۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت پر بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا، صرف اس آدمی کے مخصوص حالات کی بنا پر ہجرت کی بجائے ماں باپ کی خدمت میں لگے رہنے کی ہدایت کی، اس لیے اس حدیث سے ہجرت پر بیعت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin 'Amr that a man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "I have come pledging to emigrate (Hijrah), and I have left my parents weeping." He said: "Go back to them, and make them smile as you made them weep.