Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Importance Of Emigration (Hijrah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4164.
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا: ”اﷲ تجھ پر رحم کرے! ہجرت بہت مشکل کام ہے۔ کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا:”کیا تو ان کی زکاۃ دیتا ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”بستیوں سے باہر رہ کرنیکی کے کام کرتا رہ۔ یقینا اﷲ تعالیٰ (ہجرت نہ کرنے کی بناپر) تیرے عمل کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ ہجرت کرنا انتہائی مشکل اور عزیمت وعظمت والا کام ہے‘ ایسے لوگ بھی عظیم اور جلیل القدر ہیں‘ تاہم یہ ہر ایک کے بس کا معاملہ نہیں بسا اوقات راہ ہجرت میں پیش آمدہ مشکلات سے انسان گھبرا جاتا ہے اور اپنی ہجرت پر نادم ہوتا ہے جس سے اس کی ہجرت یقینا متاثر ہوتی ہے۔ (2) اونٹوں کی زکاۃ ادا کرنا فضیلت والا عمل ہے۔ (3) مذکورہ حدیث سے صحرا نشینوں اور اعرابیوں کے لیے نرمی کا پہلو نکلتا ہے کہ ان کی استطاعت کو مد نظر رکھ کر انہیں کسی چیز کا پابند کیا جائے۔ اسی لیے ان پر ہجرت فرض نہیں تھی جبکہ مکہ شہروالوں پر ہجرت فرض تھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه الشيخان، وابن حبان (3238) ) .
إسناده: حدثنا مؤَمَّلُ بن الفضل: ثنا الوليد بن مسلم عن الأوزاعي عن
الزهري عن عطاء بن يزيد عن أبي سعيد الخدري.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير مؤمل بن
الفضل، وهو ثقة، وقد توبع عند الشيخين وغيرهما كما يأتي.
والحديث أخرجه البخاري (3/245 و 5/187 و 7/207 و 10/456) ، ومسلم
(6/28- 29) ، والنسائي (2/182) من طرق أخرى عن الوليد بن مسلم... به.
وإسناده مسلسل بالتحديث عند مسلم ورواية البخاري.
وتابعه أبو إسحاق الفَزَارِي عن الأوزاعي... به: أخرجه أحمد (3/14) .
وإسناده صحيح أيضاً على شرطهما؛ والفزاري: اسمه إبراهيم بن محمد بن
الحارث.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4175
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4175
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4169
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا: ”اﷲ تجھ پر رحم کرے! ہجرت بہت مشکل کام ہے۔ کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا:”کیا تو ان کی زکاۃ دیتا ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”بستیوں سے باہر رہ کرنیکی کے کام کرتا رہ۔ یقینا اﷲ تعالیٰ (ہجرت نہ کرنے کی بناپر) تیرے عمل کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ ہجرت کرنا انتہائی مشکل اور عزیمت وعظمت والا کام ہے‘ ایسے لوگ بھی عظیم اور جلیل القدر ہیں‘ تاہم یہ ہر ایک کے بس کا معاملہ نہیں بسا اوقات راہ ہجرت میں پیش آمدہ مشکلات سے انسان گھبرا جاتا ہے اور اپنی ہجرت پر نادم ہوتا ہے جس سے اس کی ہجرت یقینا متاثر ہوتی ہے۔ (2) اونٹوں کی زکاۃ ادا کرنا فضیلت والا عمل ہے۔ (3) مذکورہ حدیث سے صحرا نشینوں اور اعرابیوں کے لیے نرمی کا پہلو نکلتا ہے کہ ان کی استطاعت کو مد نظر رکھ کر انہیں کسی چیز کا پابند کیا جائے۔ اسی لیے ان پر ہجرت فرض نہیں تھی جبکہ مکہ شہروالوں پر ہجرت فرض تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہارا برا ہو۔ ہجرت کا معاملہ تو سخت ہے۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان کی زکاۃ نکالتے ہو؟“ کہا: جی ہاں ، آپ نے فرمایا: ”جاؤ، پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ تمہاری جیسی نیت ہے اس کے مطابق تمہیں ہجرت کا ثواب ملے گا تم خواہ کہیں بھی رہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت ان لوگوں پر واجب ہے جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed that: a Bedouin asked the Messenger of Allah about emigration (Hijrah). He said: "Woe to you, emigration is very important. Do you have any camels?" He said: "Yes. He said: "Do you pay Sadaqah on them?" He said: "Yes." He said: "Do righteous deeds no matter how far away you are from the Muslims, for Allah, the Mighty and sublime, will never cause any of your deeds tobe lost.