Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Emigration (Hijrah) Of A Bedouin)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4165.
حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ہجرت کون سی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو ان کاموں کو چھوڑدے جنھیں تیرا رب تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔“ نیز رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”ہجرت دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک تو شہری کی ہجرت‘ دوسری بدوی (اعرابی) کی ہجرت۔ بدوی کا کام یہ ہے کہ جب اسے بلایا جائے تو وہ آجائے اور جب اسے حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے لیکن شہری کو مشقت بھی زیادہ ہے اور ثواب بھی۔“
تشریح:
(1) ”ان کاموں کو چھوڑ دے“ ہجرت کے لغوی معنیٰ چھوڑ دینے کے ہیں۔ معروف ہجرت میں گھر بار‘ رشتہ دار اور مال ومنال چھوڑا جاتا ہے۔ آپ نے اس لحاظ سے فرمایا کہ افضل ہجرت گناہوں کو چھوڑنا ہے کیونکہ ہجرت بھی تودین کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہے۔ گناہوں کے چھوڑنے سے بھی دین محفوظ ہوجاتا ہے۔ اگر گناہ نہ چھوڑنا‘ وطن چھوڑنے سے بہتر ہے اور ہجرت میں بھی وطن چھوڑنے کا اصل مقصد تو گناہ چھوڑنا اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہی ہے۔ (2) ”جب اسے بلایا جائے“ یعنی جب اسے جہاد کے لیے بلایا جائے تو وہ آجائے۔ اور اپنے گھر میں رہ کر شریعت پر عمل کرتا رہے۔ گاؤں اور قبائل کے رہنے والوں پر ہجرت فرض نہیں تھی جبکہ مکہ شہر میں رہنے والے مسلمانوں پر ہجرت فرض تھی لہٰذا شہری کے لیے مشقت بھی زیادہ اور اس کا اجر بھی زیادہ تھا۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 3 / 261 :
أخرجه ابن حبان ( 1580 - 1581 ) و النسائي في " الكبرى " ( 2 / 50 - سير )
و الحاكم ( 1 / 11 ) من طريق عمرو بن مرة عن عبد الله بن الحارث عن أبي كثير عن
عبد الله بن عمرو : قال رجل : " يا رسول الله أي الهجرة أفضل ؟ قال : أن
تهجروا ما كره الله ، و الهجرة هجرتان ... " الحديث .
قلت : و هذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم غير أبي كثير و هو زهير بن الأقمر
الزبيدي ، قال الذهبي : " ما حدث عنه سوى عبد الله بن الحارث الزبيدي ، وثقه
العجلي و النسائي و كأنه مات في خلافة عبد الملك " . و في " التقريب " :
" مقبول " .
قلت : فقول الحاكم : " صحيح " . غير مقبول ! ثم وجدت للحديث شاهدا من حديث ابن
عمر مرفوعا به . أخرجه ابن عرفة في " جزئه " ( 91 ) و عنه البيهقي في " الشعب "
( 2 / 416 / 1 ) بإسناد صحيح ، فثبت الحديث ، و الحمد لله
السلسلة الصحيحة 1262
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4176
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4176
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4170
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ہجرت کون سی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو ان کاموں کو چھوڑدے جنھیں تیرا رب تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔“ نیز رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”ہجرت دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک تو شہری کی ہجرت‘ دوسری بدوی (اعرابی) کی ہجرت۔ بدوی کا کام یہ ہے کہ جب اسے بلایا جائے تو وہ آجائے اور جب اسے حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے لیکن شہری کو مشقت بھی زیادہ ہے اور ثواب بھی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ان کاموں کو چھوڑ دے“ ہجرت کے لغوی معنیٰ چھوڑ دینے کے ہیں۔ معروف ہجرت میں گھر بار‘ رشتہ دار اور مال ومنال چھوڑا جاتا ہے۔ آپ نے اس لحاظ سے فرمایا کہ افضل ہجرت گناہوں کو چھوڑنا ہے کیونکہ ہجرت بھی تودین کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہے۔ گناہوں کے چھوڑنے سے بھی دین محفوظ ہوجاتا ہے۔ اگر گناہ نہ چھوڑنا‘ وطن چھوڑنے سے بہتر ہے اور ہجرت میں بھی وطن چھوڑنے کا اصل مقصد تو گناہ چھوڑنا اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہی ہے۔ (2) ”جب اسے بلایا جائے“ یعنی جب اسے جہاد کے لیے بلایا جائے تو وہ آجائے۔ اور اپنے گھر میں رہ کر شریعت پر عمل کرتا رہے۔ گاؤں اور قبائل کے رہنے والوں پر ہجرت فرض نہیں تھی جبکہ مکہ شہر میں رہنے والے مسلمانوں پر ہجرت فرض تھی لہٰذا شہری کے لیے مشقت بھی زیادہ اور اس کا اجر بھی زیادہ تھا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! کون سی ہجرت زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ وہ تمام چیزیں چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناپسند ہیں“، اور فرمایا: ”ہجرت دو قسم کی ہے: ایک شہری کی ہجرت اور ایک اعرابی (دیہاتی) کی ہجرت، رہا اعرابی تو وہ جب بلایا جاتا ہے آ جاتا ہے اور اسے جو حکم دیا جاتا ہے مانتا ہے، لیکن شہری کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے، اور اسی (حساب سے) اس کو بڑھ کر ثواب ملتا ہے.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی ہجرت تو اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے روکا ہے اس کا چھوڑنا ہی ہے، خود ترک وطن بھی ممنوع چیزوں سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے، اور شہر میں رہنے والے سے زیادہ اعرابی (دیہاتی) کے لیے وطن چھوڑنا آسان ہے، کیونکہ آبادی میں رہنے والوں کے معاشرتی مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے ترک وطن بڑا ہی تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے، اور اسی لیے ان کی ہجرت (ترک وطن) کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr said: "A man said: 'O Messenger of Allah! Which emigration (Hijrah) is best?' He said: 'To leave what your Lord, the Mighty and Sublime, dislikes.' He said: 'There are two kinds of emigration, the emigration of the town dweller and the emigration of the Bedouin. As for the Bedouin, when he is called (to fight in Jihad) he must respond, and he must obey when he is commanded, and as for the town dweller, he is the one who is more severely tested and more greatly rewarded.