Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Women's Pledge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4179.
حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ایک عورت نے دور جاہلیت میں نوحہ کرنے میں مدد کی تھی۔ میں جاکر اس کی مدد کرکے آتی ہوں، پھر آکر آپ کی بیعت کروں گی۔ آپ نے فرمایا: ”جا‘ اس کی مدد کرآ۔“ میں گئی اور میں نے اس کی مدد کا اسے بدلہ دیا، پھر میں آئی اور رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کی۔
تشریح:
(1) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ عورتوں سے بیعت لینا مشروع ہے جیسا کہ خود رسول اﷲ ﷺ نے عورتوں سے بیعت لی تھی۔ (2) حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا حرام اور ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ شرعاََ یہ بہت قبیح کام ہے، اس لیے اس سے روکنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت منقول ہے کہ وہ کسی کی وفات پر اگر کسی کو غلط انداز میں اور غیر شرعی رونا روتے دیکھتے تو اسے پتھر وغیرہ مارتے اور اس رونے والے شخص کے منہ میں مٹی ٹھونستے۔ دیکھیے: حرمت نوحہ کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاََ: یہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے، غم زیادہ اور صبر نہ کرنے کا سبب بنتا ہے، نیز نوحہ کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی قضا و قدر کی مخالفت اور اس پر عدم رضا لازم آتی ہے۔ (3) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شارع ﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں اور جس کے لیے چاہیں عام قانون میں تخصیص فرما دیں جس طرح کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے تخصیص کی گئی۔ (4) ”ایک عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی“ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی گھر کوئی میت ہوتی تو دوسری عورتیں باری باری اس کے گھر کی عورتوں سے مل کر جھوٹ موٹ کرتیں اور زبانی رونا روتیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بیعت کرنے لگیں تو آپ نے بیعت کے وقت نوحہ نہ کرنے کا بھی ذکر فرمایا۔ ان کو خیال آیا کہ فلاں عورت نےتو نوحہ میں میری مدد کی تھی۔ اور جاہلیت میں اس مدد کو بھی لین دین کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کا باقاعدہ مطالبہ ہوتا تھا۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ ہوا کہ کل کلاں وہ عورت آکر مجھ سے بدلے کا مطالبہ کرے گی، اس لیے مجھے بیعت سے پہلے ہی بدلہ چکا دینا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4190
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4190
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4184
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ایک عورت نے دور جاہلیت میں نوحہ کرنے میں مدد کی تھی۔ میں جاکر اس کی مدد کرکے آتی ہوں، پھر آکر آپ کی بیعت کروں گی۔ آپ نے فرمایا: ”جا‘ اس کی مدد کرآ۔“ میں گئی اور میں نے اس کی مدد کا اسے بدلہ دیا، پھر میں آئی اور رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ عورتوں سے بیعت لینا مشروع ہے جیسا کہ خود رسول اﷲ ﷺ نے عورتوں سے بیعت لی تھی۔ (2) حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا حرام اور ناجائز ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ شرعاََ یہ بہت قبیح کام ہے، اس لیے اس سے روکنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت منقول ہے کہ وہ کسی کی وفات پر اگر کسی کو غلط انداز میں اور غیر شرعی رونا روتے دیکھتے تو اسے پتھر وغیرہ مارتے اور اس رونے والے شخص کے منہ میں مٹی ٹھونستے۔ دیکھیے: حرمت نوحہ کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاََ: یہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے، غم زیادہ اور صبر نہ کرنے کا سبب بنتا ہے، نیز نوحہ کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی قضا و قدر کی مخالفت اور اس پر عدم رضا لازم آتی ہے۔ (3) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شارع ﷺ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں اور جس کے لیے چاہیں عام قانون میں تخصیص فرما دیں جس طرح کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے لیے تخصیص کی گئی۔ (4) ”ایک عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی“ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی گھر کوئی میت ہوتی تو دوسری عورتیں باری باری اس کے گھر کی عورتوں سے مل کر جھوٹ موٹ کرتیں اور زبانی رونا روتیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بیعت کرنے لگیں تو آپ نے بیعت کے وقت نوحہ نہ کرنے کا بھی ذکر فرمایا۔ ان کو خیال آیا کہ فلاں عورت نےتو نوحہ میں میری مدد کی تھی۔ اور جاہلیت میں اس مدد کو بھی لین دین کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کا باقاعدہ مطالبہ ہوتا تھا۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ ہوا کہ کل کلاں وہ عورت آکر مجھ سے بدلے کا مطالبہ کرے گی، اس لیے مجھے بیعت سے پہلے ہی بدلہ چکا دینا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام عطیہ ؓ کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنی چاہی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک عورت نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ (سوگ منانے) میں میری مدد کی تھی تو مجھے اس کے یہاں جا کر نوحہ میں اس کی مدد کرنی چاہیئے، پھر میں آ کر آپ سے بیعت کر لوں گی۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ اس کی مدد کرو“، چنانچہ میں نے جا کر اس کی مدد کی، پھر آ کر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ بیعت کے بعد وہ نوحہ میں مدد نہیں کر سکتی تھیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آ رہی ہے، یہ اجازت صرف ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھی اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو یہ حق نہیں کہ شریعت کے کسی حکم کو کسی کے لیے خاص کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Umm 'Atiyyah said: "When I wanted to give pledge to the Messenger of Allah, I said: 'O Messenger of Allah, women helped me (in wailing for the dead) during the Jahiliyyah; shall I go and help her (in wailing) and then come to you and give you my oath of allegiance?' He said: 'Go and help her.' So I went and helped her, then I came, and gave my pledge to the Messenger of Allah.