Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Pledge Of The One Who Has A Deformity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4182.
آل شرید کے ایک شخص عمرو کے والد سے بیعت سے روایت ہے کہ بنو ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی آیا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے پیغام بھیجا: ”واپس چلے جاؤ (میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں) میں نے تیری بیعت قبول کرلی ہے۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ مجذوم شخص سے بیعت لینا مشروع ہے، تا ہم ایسے شخص سے صرف زبانی کلامی بیعت بھی ہوسکتی ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطر ناک بیماری میں مبتلا شخص سے دوری اختیار کرنا جائز ہے، تاہم ایسے شخص کو بالکل نظر انداز کرنا اور کلی طور پر اسے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا درست نہیں۔ اس کا علاج کرانا چاہیے۔ ضرورت کے مطابق اس سے میل جول اور اس کی معاونت ہو سکتی ہے۔ (3) آفت زدہ شخص سے مراد وہ شخص ہے جو انتہائی قبیح مرض میں گرفتار ہو۔ لوگ اس سے بہت نفرت کرتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو، مثلاََ: جذام (کوڑھ) یہ انتہائی قبیح اور خوف ناک مرض ہے۔ طبعاََ ہر آدمی اس سے دور بھاگتا ہے۔ اس مرض کا مواد مریض کے جسم پر ہر وقت موجود رہتا ہے۔ قریب آنے سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے جس سے اس کے متاثر ہونے کو خدشہ ہے، اس لیے نبی ﷺ نے اسے مجلس میں آنے سے منع فرما دیا۔ ایسے مریض کو خود بھی حتیٰ الامکان مجالس میں آنے سے بچنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ اس مرض سے بچائے۔ (4) ”بیعت قبول کرلی ہے“ کیونکہ اصل اعتبار تو دلی عہد کا ہے۔ زبان وہاتھ تو صرف تاکید کے لیے ہیں، ضروری نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4193
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4193
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4187
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
آل شرید کے ایک شخص عمرو کے والد سے بیعت سے روایت ہے کہ بنو ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی آیا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے پیغام بھیجا: ”واپس چلے جاؤ (میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں) میں نے تیری بیعت قبول کرلی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ مجذوم شخص سے بیعت لینا مشروع ہے، تا ہم ایسے شخص سے صرف زبانی کلامی بیعت بھی ہوسکتی ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطر ناک بیماری میں مبتلا شخص سے دوری اختیار کرنا جائز ہے، تاہم ایسے شخص کو بالکل نظر انداز کرنا اور کلی طور پر اسے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا درست نہیں۔ اس کا علاج کرانا چاہیے۔ ضرورت کے مطابق اس سے میل جول اور اس کی معاونت ہو سکتی ہے۔ (3) آفت زدہ شخص سے مراد وہ شخص ہے جو انتہائی قبیح مرض میں گرفتار ہو۔ لوگ اس سے بہت نفرت کرتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو، مثلاََ: جذام (کوڑھ) یہ انتہائی قبیح اور خوف ناک مرض ہے۔ طبعاََ ہر آدمی اس سے دور بھاگتا ہے۔ اس مرض کا مواد مریض کے جسم پر ہر وقت موجود رہتا ہے۔ قریب آنے سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے جس سے اس کے متاثر ہونے کو خدشہ ہے، اس لیے نبی ﷺ نے اسے مجلس میں آنے سے منع فرما دیا۔ ایسے مریض کو خود بھی حتیٰ الامکان مجالس میں آنے سے بچنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ اس مرض سے بچائے۔ (4) ”بیعت قبول کرلی ہے“ کیونکہ اصل اعتبار تو دلی عہد کا ہے۔ زبان وہاتھ تو صرف تاکید کے لیے ہیں، ضروری نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شرید ؓ کہتے ہیں کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے کہلا بھیجا کہ”لوٹ جاؤ، میں نے تمہاری بیعت لے لی.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح سے یہ جانتے تھے کہ اس کے آنے سے لوگ گھن محسوس کریں گے اور ممکن ہے کہ بعض کمزور ایمان والے وہم میں بھی مبتلا ہو جائیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہاری بیعت لے لی۔ خود آپ کو گھن نہیں آئی، نہ آپ کو کسی وہم میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا، آپ سے بڑھ کر صاحب ایمان کون ہو سکتا ہے۔؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrted from a man from Al Ash-Sharid, who was called 'Amr, that his father said: "Among the delegation of Thaqif there was a man who suffered from leprosy. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) sent word to him saying: 'Go back, for I have accepted your pledge.