باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان : {وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} کی وضاحت
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Saying Of Allah, The Most High: "And those of you (Muslims) who are in authority)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4194.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو“ حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں اتری۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر میں (امیر بنا کر) بھیجا تھا۔
تشریح:
(1) آیت میں ﴿أُولِي الأمْرِ﴾ سے مراد امراء اور حکام ہیں۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس سے مراد علماء بھی ہیں، خواہ علماء ہوں یا امراء و حکام سب کی اطاعت قرآن و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کا کوئی حکم شریعت کے مخالف ہو اس میں ان کی اطاعت بجا لانا ناجائز اور حرام ہے۔ (2) اس آیت سے بعض لوگوں نے تقلید شخصی کا مسئلہ کشید کرنے کی جسارت کی ہے۔ حالانکہ آیت مبارکہ سے تو تقلید شخصی کا رد ہوتا ہے، بالخصوص منصوص امور میں تو کسی کی قطعاً کوئی تقلید جائز ہی نہیں، چاہے کوئی شخص کتنا ہی محترم، بزرگ، فقیہ اور بڑا کیوں نہ ہو، نص کے مقابلے میں تو ہر شخص ہی چھوٹا ہے۔ یہی حل امراء کا بھی ہے کہ ان کی اطاعت بھی صرف معروف میں ہے، نہ کہ منکر میں جیسا کہ متعدد بار سابقہ احادیث کے فوائد میں ذکر ہو چکا ہے۔ (3) یہ حدیث متفق علیہ، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور ایک شخص (حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو اس دستے کا امیر مقرر فرمایا۔ امیر دستہ نے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنی معمورین کو حکم دیا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے اسے آگ لگاؤ اور اس آگ میں کود جاؤ، چنانچہ کچھ لوگ تو آگ میں کودنے پر تیار ہو گئے جبکہ کچھ نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں اور نبی ﷺ کی طرف دوڑ کر آئے ہیں اور وہ آگ کے اندر جانے پر تیار نہ ہوئے۔ بالآخر نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اس وقت فرمایا: [ لودَخَلُوهاما خَرَجُوا منها إلى يَومِ القِيامَةِ ]”اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو روز قیامت تک اسی میں رہتے، اس سے نکل نہ سکتے۔“ اور آپ نے مزید فرمایا: [الطّاعةُفي المعروفِ ]”اطاعت تو صرف معروف (شریعت مطہرہ کے عین مطابق) کاموں میں ہے۔“(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۳۴۰) تقلید شخصی کے لیے اس آیت کو پیش کرنے والوں کو بہت بڑی ٹھوکر لگی ہے کیونکہ نزول قرآن کے وقت تو موجودہ دور کے مقلدین کے مجتہدین کا وجود تک دنیا میں نہیں تھا۔ پھر ان کی تقلید کیسی؟ ان مجتہدین کے زمانے میں بھی ان کی تقلید کا قطعاً کوئی رواج تھا اور نہ اس کا تصور ہی۔ بلکہ بدعتِ تقلید تو ہجرت نبوی کے چار سو سال بعد رائج ہوئی جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔ دین اسالم میں تو اس بات کی قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ تمام دینی معاملات میں کسی ایک متعین امتی مجتہد کی تقلید کی جائے چہ جائیکہ اس کو واجب قرار دیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : هو سليمان بن حيان وهو ثقة أحتج به الشيخان ولم يتفرد بها بل تابعه محمد بن سعد الأنصاري وهو ثقة كما قال ابن معين وغيره أخرجه النسائي والدارقطني ويقويها الطريق السابعة وقد صحح هذه الزيادة الإمام مسلم وإن لم يخرجها في صحيحه ففيه ( 2 / 15 ) : " فقال له أبو بكر بن أخت أبي النضر فحديث أبي هريرة ؟ فقال : هو صحيح يعني : وإذا قرأ فأنصتوا : فقال : هو عندي صحيح فقال : لم لم تضعه ههنا ؟ قال : ليس كل شئ عندي صحيح وضعته ههنا وإنما وضعت ههنا ما أجمعوا عليه " . ومما يقوي هذه الزيادة أن لها شاهدا من حديث ابي موسى الاشعري عند مسلم وغيره كما تقدم برقم ( 332 ) . والحديث رواه مصعب بن محمد عن أبي صالح به بلفظ : " إنما جعل الإمام ليؤتهم به فإذا كبر فكبروا ولا تكبروا حتى يكبر وإذا ركع فأركعوا ولا تركعوا حتى يركع وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا : اللهم ربنا لك الحمد وإذا سجد فأسجدوا ولا تسجدوا حتى يسجد وإذا صلى قائما فصلوا قياما فإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعون " . أخرجه أبو داود ( 603 ) وأحمد ( 2 / 341 ) ورواه الطحاوي مختصرا . قلت : وهذا سند صحيح . السادسة : عن أبي سلمة عنه مثل الطريق الرابعة . أخرجه ابن ماجه ( 1239 ) والطحاوي وأحمد ( 2 / 411 ، 438 ، 475 )
السابعة : عجلان المدني عنه بلفظ : " إنما الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا وإذا قال : ولا الضالين فقولوا : آمين وإذا ركع فاركعوا . الحديث . رواه أحمد ( 2 / 376 ) : حدثنا [ أبو ] سعد الصاغاني محمد بن ميسر حدثنا محمد بن عجلان عن أبيه . وكذا رواه الدارقطني ( 125 ) قلت : ورجاله ثقات غير أبي سعد هذا فإنه ضعيف . وأما حديث جابر فله عنه طرق : الأولى : عن أبي الزبير عنه قال : " اشتكى رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) فصلينا وراءه وهو قاعد وأبو بكر يسمع الناس تكبيره فالتفت إلينا فرآنا قياما فأشار إلينا فقعدنا فصلينا بصلاته قعودا فلما سلم قال : إن كدتم آنفا لتفعلون فعل فارس والروم يقومون على ملوكهم وهم قعود فلا تفعلوا ائتموا بائمتكم إن صلى قائما فصلوا قياما وإن صلى قاعدا فصلوا قعودا " . أخرجه مسلم ( 2 / 19 ) وأبو عوانة ( 2 / 108 ) وابن ماجه ( 1240 ) والطحاوي ( 1 / 234 ) والبيهقي وأحمد ( 3 / 334 ) من طريق الليث ابن سعد وغيره عنه . الثانية : عن أبي سفيان عنه قال : " ركب رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) " فرسا بالمدينة فصرعه على جذم نخلة فانفكت قدمه فأتيناه نعوده فوجدناه في مشربة لعائشة يسبح جالسا قال : فقمنا خلفه فأشار إلينا فقعدنا قال : فلما قضى الصلاة قال : إذا صلى الإمام جالسا فصلوا جلوسا وإذا صلى الإمام قائما فصلوا قياما ولا تفعلوا كما يفعل أهل فارس بعظمائها . أخرجه أبو داود ( 602 ) والبيهقي ( 3 / 80 ) وأحمد ( 3 / 300 ) وإسناده صحيح على شرط مسلم
وأما حديث ابن عمر فلفظه مثل لفظ رواية ابي علقمة عن أبي هريرة في الرواية الثالثة دون قوله : " وإذا قال : سمع الله لمن حمده . . . " الخ . رواه الطحاوي بسند صحيح
ابن ماجة ( 2859 ) // ، و مختصر مسلم ( 1223 ) ، صحيح الجامع الصغير ( 6044
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4205
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4205
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4199
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو“ حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں اتری۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر میں (امیر بنا کر) بھیجا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) آیت میں ﴿أُولِي الأمْرِ﴾ سے مراد امراء اور حکام ہیں۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس سے مراد علماء بھی ہیں، خواہ علماء ہوں یا امراء و حکام سب کی اطاعت قرآن و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کا کوئی حکم شریعت کے مخالف ہو اس میں ان کی اطاعت بجا لانا ناجائز اور حرام ہے۔ (2) اس آیت سے بعض لوگوں نے تقلید شخصی کا مسئلہ کشید کرنے کی جسارت کی ہے۔ حالانکہ آیت مبارکہ سے تو تقلید شخصی کا رد ہوتا ہے، بالخصوص منصوص امور میں تو کسی کی قطعاً کوئی تقلید جائز ہی نہیں، چاہے کوئی شخص کتنا ہی محترم، بزرگ، فقیہ اور بڑا کیوں نہ ہو، نص کے مقابلے میں تو ہر شخص ہی چھوٹا ہے۔ یہی حل امراء کا بھی ہے کہ ان کی اطاعت بھی صرف معروف میں ہے، نہ کہ منکر میں جیسا کہ متعدد بار سابقہ احادیث کے فوائد میں ذکر ہو چکا ہے۔ (3) یہ حدیث متفق علیہ، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور ایک شخص (حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو اس دستے کا امیر مقرر فرمایا۔ امیر دستہ نے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنی معمورین کو حکم دیا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے اسے آگ لگاؤ اور اس آگ میں کود جاؤ، چنانچہ کچھ لوگ تو آگ میں کودنے پر تیار ہو گئے جبکہ کچھ نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں اور نبی ﷺ کی طرف دوڑ کر آئے ہیں اور وہ آگ کے اندر جانے پر تیار نہ ہوئے۔ بالآخر نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اس وقت فرمایا: [ لودَخَلُوهاما خَرَجُوا منها إلى يَومِ القِيامَةِ ]”اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو روز قیامت تک اسی میں رہتے، اس سے نکل نہ سکتے۔“ اور آپ نے مزید فرمایا: [الطّاعةُفي المعروفِ ]”اطاعت تو صرف معروف (شریعت مطہرہ کے عین مطابق) کاموں میں ہے۔“(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۳۴۰) تقلید شخصی کے لیے اس آیت کو پیش کرنے والوں کو بہت بڑی ٹھوکر لگی ہے کیونکہ نزول قرآن کے وقت تو موجودہ دور کے مقلدین کے مجتہدین کا وجود تک دنیا میں نہیں تھا۔ پھر ان کی تقلید کیسی؟ ان مجتہدین کے زمانے میں بھی ان کی تقلید کا قطعاً کوئی رواج تھا اور نہ اس کا تصور ہی۔ بلکہ بدعتِ تقلید تو ہجرت نبوی کے چار سو سال بعد رائج ہوئی جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔ دین اسالم میں تو اس بات کی قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ تمام دینی معاملات میں کسی ایک متعین امتی مجتہد کی تقلید کی جائے چہ جائیکہ اس کو واجب قرار دیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ»”اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔“ (النساء: ۵۹) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی ؓ کے سلسلے میں اتری، انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ میں بھیجا تھا.۱؎
حدیث حاشیہ:
1؎ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اس سریہ میں کسی بات پر اپنے ماتحتوں پر ناراض ہو گئے تو آگ جلانے کا حکم دیا، اور جب آگ جلا دی گئی تو سب کو حکم دیا کہ اس میں کود جائیں، اس پر بعض ماتحتوں نے کہا: ہم تو آگ ہی سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو پھر آگ میں کیوں داخل ہوں، پھر معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے کی بات آئی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیٰ الامر سے مراد امراء ہیں نہ کہ علماء اور اگر علماء بھی شامل ہیں تو مقصود یہ ہو گا کہ ایسے امور جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات موجود نہ ہوں ان میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ ”ائمہ اربعہ کے بارے میں خاص طور پر اس آیت کے نازل ہونے کی بات تو قیاس سے بہت زیادہ بعید ہے کیونکہ اس وقت تو ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور ان کی تقلید جامد تو بقول شاہ ولی اللہ دہلوی چوتھی صدی کی پیداوار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas (concerning the Verse): "O you who believe! Obey Allah and obey the Messenger (Muhammad). That he said: This was revealed concerning 'Abdullah bin Hudhaifah bin Qais bin 'Adiyy, whom the Messenger of Allah (ﷺ) appointed in charge of an expedition