Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Rights And Duties Of The Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4196.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام ڈھال ہے۔ اس کی آڑ میں لڑا جائے اور اس کی مدد کے ساتھ دشمن سے بچا جائے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے حکم دے اور انصاف کرے تو اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اگر وہ اس طرح حکم نہ دے تو اسے گناہ ہو گا۔“
تشریح:
(1) امیر و امام کے حقوق و فرائض کی تعیین و تبیین کے بعد جو بھی اس سے عدول اور تجاوز کرے گا، گناہ گار ہو گا۔ امام اپنے فرائض عدل و انصاف سے ادا کرے گا تو وہ اجر عظیم کا مستحق ہو گا اور اگر ظلم و بے انصافی کرے گا تو اللہ کے ہاں گناہ گار ٹھہرے گا۔ (2) حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ امام کو ڈھال بنایا جائے، شر اور فتنہ و فساد سے امام کے ذریعے سے بچا جائے۔ تمام معاملات میں اس کے مبنی بر انصاف فیصلے تسلیم کیے جائیں، اور اس کی اطاعت کی جائے، اسے کسی بھی صورت میں اپنے تعاون سے محروم نہ کیا جائے اور نہ اسے کسی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑا جائے۔ اپنی ہلاکت کے ڈر سے اسے تنہا نہ چھوڑا جائے وغیرہ۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ شرعی امیر و حاکم لوگوں کے لیے اس طرح ڈھال ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہیں کرتا، نیز دشمن بھی اس سے خوف زدہ رہتا ہے، لہٰذا اس ڈھال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ”اس کی آڑ میں لڑا جائے“ کے معنیٰ ہیں کہ امام کو محفوظ جگہ رکھا جائے، دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ امام خود مجاہدین کی اگلی صفوں میں ہو اور بہادری سے دشمن کے ساتھ قتال کرے۔ دونوں معانی درست ہیں کیونکہ بعض مقامات پر نبی ﷺ کے لیے محفوظ جگہ بنائی گی۔ جہاں سے آپ میدان جنگ کا مشاہدہ کرتے اور اس کے مطابق اوامر جاری فرماتے اور بعض مقامات میں نبی ﷺ کا اگلی صفوں میں رہ کر قتال کرنا بھی ثابت ہے، جب جنگ کی شدت ہوتی تو صحابہ آپ کو اپنے لیے ڈھال بناتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4207
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4207
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4201
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام ڈھال ہے۔ اس کی آڑ میں لڑا جائے اور اس کی مدد کے ساتھ دشمن سے بچا جائے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے حکم دے اور انصاف کرے تو اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اگر وہ اس طرح حکم نہ دے تو اسے گناہ ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امیر و امام کے حقوق و فرائض کی تعیین و تبیین کے بعد جو بھی اس سے عدول اور تجاوز کرے گا، گناہ گار ہو گا۔ امام اپنے فرائض عدل و انصاف سے ادا کرے گا تو وہ اجر عظیم کا مستحق ہو گا اور اگر ظلم و بے انصافی کرے گا تو اللہ کے ہاں گناہ گار ٹھہرے گا۔ (2) حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ امام کو ڈھال بنایا جائے، شر اور فتنہ و فساد سے امام کے ذریعے سے بچا جائے۔ تمام معاملات میں اس کے مبنی بر انصاف فیصلے تسلیم کیے جائیں، اور اس کی اطاعت کی جائے، اسے کسی بھی صورت میں اپنے تعاون سے محروم نہ کیا جائے اور نہ اسے کسی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑا جائے۔ اپنی ہلاکت کے ڈر سے اسے تنہا نہ چھوڑا جائے وغیرہ۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ شرعی امیر و حاکم لوگوں کے لیے اس طرح ڈھال ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہیں کرتا، نیز دشمن بھی اس سے خوف زدہ رہتا ہے، لہٰذا اس ڈھال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ”اس کی آڑ میں لڑا جائے“ کے معنیٰ ہیں کہ امام کو محفوظ جگہ رکھا جائے، دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ امام خود مجاہدین کی اگلی صفوں میں ہو اور بہادری سے دشمن کے ساتھ قتال کرے۔ دونوں معانی درست ہیں کیونکہ بعض مقامات پر نبی ﷺ کے لیے محفوظ جگہ بنائی گی۔ جہاں سے آپ میدان جنگ کا مشاہدہ کرتے اور اس کے مطابق اوامر جاری فرماتے اور بعض مقامات میں نبی ﷺ کا اگلی صفوں میں رہ کر قتال کرنا بھی ثابت ہے، جب جنگ کی شدت ہوتی تو صحابہ آپ کو اپنے لیے ڈھال بناتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام ایک ڈھال ہے جس کے زیر سایہ۱؎ سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے جان بچائی جاتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ اللہ سے تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر وہ اس کے علاوہ کا حکم دے تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اس کی رائے سے اور اس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "The Imam is like a shield whose orders should be obeyed when they (the Muslims) fight, and where they should seek protection. If he enjoins fear of Allah and behaves justly, then he will be rewarded, but if he enjoins otherwise, then it will be a burden (of sin) on him.