باب: اگر کسی کو گناہ کا حکم دیا جائے اور وہ اطاعت کرے تو ...؟
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: The Punishment Of One Who Is Commanded To Commit Sin And Obeys The Command.)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4205.
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا۔ اس نے آگ جلائی اور کہنے لگا: اس میں چھلانگیں لگا دو۔ کچھ لوگوں نے چھلانگیں لگانے کا ارادہ کر لیا۔ دوسرے کہنے لگے: ہم آگ سے بچنے کے لیے تو مسلمان ہوئے ہیں (لہٰذا ہم آگ میں چھلانگ نہیں لگائیں گے)۔ پھر (واپسی پر) انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے ان لوگوں کو، جنہوں نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا تھا، (مخاطب کر کے) فرمایا: ”اگر تم آگ میں چھلانگیں لگا دیتے تو قیامت تک آگ ہی میں رہتے۔“ اور دوسروں کے لیے خیر کا کلمہ کہا۔ (استاد) ابو موسیٰ (محمد بن مثنیٰ) نے اپنی حدیث میں کہا: اور آپ نے دوسرے لوگوں کے بارے میں اچھی بات فرمائی۔ اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ صرف اطاعت اچھے کاموں میں ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام و امیر ایسا حکم دے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی پر مبنی ہو تو ایسا حکم اور امیر قطعاً واجب الطاعۃ نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسے کسی حکم کو مانے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ غصہ بڑے بڑے عقیل و فہیم اور جلیل القدر عظماء کی عقل کو بھی ماؤف کر دیتا ہے جیسا کہ اس صحابیٔ رسول کا معاملہ ہے کہ جسے خود رسول اللہ ﷺ نے امیر سریہ مقرر فرمایا اور کسی بات پر ناراض ہو کر وہ غصے میں آ گئے اور اپنے ساتھیوں کو آگ جلا کر اس میں کود جانے کا حکم دے دیا۔ (3) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ساری امت، ضلالت و گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنے امیر کے غیر شرعی حکم کی اطاعت نہیں کی۔ (4) رسول اللہ ﷺ نے سریہ میں جانے والے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ اپنے امیر کی اطاعت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالت ناراضی میں بھی انہیں امیر نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ اس پر تیار ہو گئے کیونکہ انہوں نے اطاعت امیر والے مطلق حکم کو عام، یعنی ہر قسم کے حالات کو شامل سمجھا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم مطلق کا اطلاق عام اور ہر قسم کے حالات پر ضروری نہیں بلکہ وہاں اطلاق ہو گا جہاں اللہ او اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس کی وضاحت فرما دی۔ (5) ”آگ ہی میں رہتے“ یعنی ان کو قبر میں عذاب ہوتا۔ برزخی زندگی میں جہنم سے تعلق ہی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے اور جنت سے تعلق کو ثواب قبر۔ اور جہنم میں غالب آگ ہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 301 :
أخرجه البخاري ( 13 / 203 - فتح ) و مسلم ( 6 / 15 ) و أبو داود ( 2625 )
و النسائي ( 2 / 187 ) و الطيالسي ( 109 ) و أحمد ( 1 / 94 ) عن علي .
" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث جيشا ، و أمر عليهم رجلا فأوقد نارا ،
و قال : ادخلوها ، فأراد ناس أن يدخلوها ، و قال الآخرون : إنا قد فررنا منها ،
فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال للذين أرادوا أن يدخلوها : لو
دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة ، و قال للآخرين قولا حسنا ، و قال "
فذكره . و الزيادة للطيالسي و السياق لمسلم .
و في رواية عنه قال :
" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية و استعمل عليهم رجلا من الأنصار
و أمرهم أن يسمعوا له و يطيعوا ، فأغضبوه إلى شيء ، فقال : اجمعوا لي حطبا
فجمعوا له ، ثم قال . أوقدوا نارا ، فأوقدوا ، ثم قال : ألم يأمركم رسول الله
صلى الله عليه وسلم أن تسمعوا لي و تطيعوا ؟ قالوا : بلى ، قال : فادخلوها !
قال : فنظر بعضهم إلى بعض فقالوا ( و في رواية : فقال لهم شاب ) إنما فررنا إلى
رسول الله صلى الله عليه وسلم من النار ( فلا تعجلوا حتى تلقوا النبي صلى الله
عليه وسلم ، فإن أمركم أن تدخلوها فادخلوها ) فكانوا كذلك ،
و سكن غضبه و طفئت النار ، فلما رجعوا ذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم
فقال : لو دخلوها ما خرجوا منها ، إنما الطاعة في المعروف " .
أخرجه البخاري ( 8 / 47 ، 13 / 109 ) و مسلم ( 6 / 16 ) و أحمد ( 1 / 82 ، 134
) و الرواية الأخرى مع الزيادة هي له في رواية .
و في الحديث فوائد كثيرة أهمها أنه لا يجوز إطاعة أحد في معصية الله تبارك
و تعالى ، سواء في ذلك الأمراء و العلماء و المشايخ . و منه يعلم ضلال طوائف من
الناس :
الأولى : بعض المتصوفة الذين يطيعون شيوخهم و لو أمرهم بمعصية ظاهرة بحجة أنها
في الحقيقة ليست بمعصية ، و أن الشيخ يرى ما لا يرى المريد ، و أعرف شيخا من
هؤلاء نصب نفسه مرشدا قص على أتباعه في بعض دروسه في المسجد قصة خلاصتها أن أحد
مشايخ الصوفية أمر ليلة أحد مريديه بأن يذهب إلى أبيه فيقتله على فراشه بجانب
زوجته ، فلما قتله ، عاد إلى شيخه مسرورا لتنفيذ أمر الشيخ ! فنظر إليه الشيخ
و قال : أتظن أنك قتلت أباك حقيقة ؟ إنما هو صاحب أمك ! و أما أبوك فهو غائب !
ثم بنى على هذه القصة حكما شرعيا بزعمه فقال لهم : إن الشيخ إذا أمر مريده بحكم
مخالف للشرع في الظاهر أن على المريد أن يطيعه في ذلك ، قال : ألا ترون إلى هذا
الشيخ أنه في الظاهر أمر الولد بقتل والده ، و لكنه في الحقيقة إنما أمره بقتل
الزاني بوالدة الولد ، و هو يستحق القتل شرعا ! و لا يخفى بطلان هذه القصة شرعا
من وجوه كثيرة .
أولا : أن تنفيذ الحد ليس من حق الشيخ مهما كان شأنه ، و إنما هو من الأمير
أو الوالي .
ثانيا : أنه لو كان له ذلك فلماذا نفذ الحد بالرجل دون المرأة و هما في ذلك
سواء ؟ .
ثالثا : إن الزاني المحصن حكمه شرعا القتل رجما ، و ليس القتل بغير الرجم .
و من ذلك يتبين أن ذلك الشيخ قد خالف الشرع من وجوه ، و كذلك شأن ذلك المرشد
الذي بنى على القصة ما بنى من وجوب إطاعة الشيخ و لو خالف الشرع ظاهرا ، حتى
لقد قال لهم : إذا رأيتم الشيخ على عنقه الصليب فلا يجوز لكم أن تنكروا عليه !
و مع وضوح بطلان مثل هذا الكلام ، و مخالفته للشرع و العقل معا نجد في الناس من
ينطلي عليه كلامه و فيهم بعض الشباب المثقف . و لقد جرت بيني و بين أحدهم
مناقشة حول تلك القصة و كان قد سمعها من ذلك المرشد و ما بنى عليها من حكم ،
و لكن لم تجد المناقشة معه شيئا و ظل مؤمنا بالقصة لأنها من باب الكرامات في
زعمه ، قال : و أنتم تنكرون الكرامة و لما قلت له : لو أمرك شيخك بقتل والدك
فهل تفعل ؟ فقال : إنني لم أصل بعد إلى هذه المنزلة ! ! فتبا لإرشاد يؤدي إلى
تعطيل العقول و الاستسلام للمضلين إلى هذه المنزلة ، فهل من عتب بعد ذلك على من
يصف دين هؤلاء بأنه أفيون الشعب ؟
الطائفة الثانية : و هم المقلدة الذين يؤثرون اتباع كلام المذهب على كلام النبي
صلى الله عليه وسلم ، مع وضوح ما يؤخذ منه ، فإذا قيل لأحدهم مثلا : لا تصل سنة
الفجر بعد أن أقيمت الصلاة لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك صراحة لم يطع
و قال المذهب : يجيز ذلك ، و إذا قيل له : إن نكاح التحليل باطل لأن النبي صلى
الله عليه وسلم لعن فاعله ، أجابك بقوله : لا بل هو جائز في المذهب الفلاني ! و
هكذا إلى مئات المسائل ، و لهذا ذهب كثير من المحققين إلى أن أمثال هؤلاء
المقلدين ينطبق عليهم قول الله تبارك و تعالى في النصارى ( اتخذوا أحبارهم
و رهبانهم أربابا من دون الله ) كما بين ذلك الفخر الرازي في " تفسيره " .
الطائفة الثالثة : و هم الذين يطيعون ولاة الأمور فيما يشرعونه للناس من نظم
و قرارات مخالفة للشرع كالشيوعية و ما شابهها و شرهم من يحاول أن يظهر أن ذلك
موافق للشرع غير مخالف له . و هذه مصيبة شملت كثيرا ممن يدعي العلم و الإصلاح
في هذا الزمان ، حتى اغتر بذلك كثير من العوام ، فصح فيهم و في متبوعيهم الآية
السابقة " اتخذوا أحبارهم و رهبانهم أربابا من دون الله " نسأل الله الحماية
و السلامة
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4216
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4216
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4210
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا۔ اس نے آگ جلائی اور کہنے لگا: اس میں چھلانگیں لگا دو۔ کچھ لوگوں نے چھلانگیں لگانے کا ارادہ کر لیا۔ دوسرے کہنے لگے: ہم آگ سے بچنے کے لیے تو مسلمان ہوئے ہیں (لہٰذا ہم آگ میں چھلانگ نہیں لگائیں گے)۔ پھر (واپسی پر) انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے ان لوگوں کو، جنہوں نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا تھا، (مخاطب کر کے) فرمایا: ”اگر تم آگ میں چھلانگیں لگا دیتے تو قیامت تک آگ ہی میں رہتے۔“ اور دوسروں کے لیے خیر کا کلمہ کہا۔ (استاد) ابو موسیٰ (محمد بن مثنیٰ) نے اپنی حدیث میں کہا: اور آپ نے دوسرے لوگوں کے بارے میں اچھی بات فرمائی۔ اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ صرف اطاعت اچھے کاموں میں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام و امیر ایسا حکم دے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی پر مبنی ہو تو ایسا حکم اور امیر قطعاً واجب الطاعۃ نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسے کسی حکم کو مانے گا تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ غصہ بڑے بڑے عقیل و فہیم اور جلیل القدر عظماء کی عقل کو بھی ماؤف کر دیتا ہے جیسا کہ اس صحابیٔ رسول کا معاملہ ہے کہ جسے خود رسول اللہ ﷺ نے امیر سریہ مقرر فرمایا اور کسی بات پر ناراض ہو کر وہ غصے میں آ گئے اور اپنے ساتھیوں کو آگ جلا کر اس میں کود جانے کا حکم دے دیا۔ (3) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ساری امت، ضلالت و گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنے امیر کے غیر شرعی حکم کی اطاعت نہیں کی۔ (4) رسول اللہ ﷺ نے سریہ میں جانے والے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ اپنے امیر کی اطاعت کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالت ناراضی میں بھی انہیں امیر نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ اس پر تیار ہو گئے کیونکہ انہوں نے اطاعت امیر والے مطلق حکم کو عام، یعنی ہر قسم کے حالات کو شامل سمجھا، لیکن اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم مطلق کا اطلاق عام اور ہر قسم کے حالات پر ضروری نہیں بلکہ وہاں اطلاق ہو گا جہاں اللہ او اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس کی وضاحت فرما دی۔ (5) ”آگ ہی میں رہتے“ یعنی ان کو قبر میں عذاب ہوتا۔ برزخی زندگی میں جہنم سے تعلق ہی کو عذاب قبر کہا جاتا ہے اور جنت سے تعلق کو ثواب قبر۔ اور جہنم میں غالب آگ ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فوج بھیجی اور ایک شخص ۱؎ کو اس کا امیر مقرر کیا، اس نے آگ جلائی اور کہا: تم لوگ اس میں داخل ہو جاؤ، تو کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونا چاہا اور دوسروں نے کہا: ہم تو (ایمان لا کر) آگ ہی سے بھاگے ہیں، پھر لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ آپ نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونا چاہا تھا فرمایا: ”اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے، اور دوسروں سے اچھی بات کہی۔“ (ابوموسیٰ (محمد بن المثنیٰ) نے اپنی حدیث میں («خیراً» کے بجائے) «قَوْلًا حَسَنًا» (بہتر بات) کہا ہے)۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہوتی، اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
1؎ : اس سے مراد وہی عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ہیں جن کا تذکرہ حدیث نمبر ۴۱۹۹ میں گزرا۔ 2؎ : ”صرف نیک کاموں میں اطاعت، اور نافرمانی کے کاموں میں اطاعت نہ کرنے“ کی بات ہر ایک اختیار والے کے ساتھ ہو گی: خواہ حکمران اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، یا والدین، یا اساتذہ، شوہر یا کسی تنظیم کا سربراہ۔ اگر کسی سربراہ کا اکثر حکم اللہ کی نافرمانی والا ہی ہو تو ایسے آدمی کو سارے ماتحت لوگ مشورہ کر کے اختیار سے بے دخل کر دیں۔ لیکن ہتھیار سے نہیں، یا فتنہ و فساد برپا کر کے نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu 'Adur-Rahman from 'Ali (RA)that: the Messenger of Allah (ﷺ) sent an army and appointed a man in charge of them. He lit a fire and said: "Enter it." Some people wanted to enter it, and other said: "We are trying to keep away from it." They mentioned that to the Messenger of Allah (ﷺ), and he said to those who had wanted to enter if: "If you had entered it you would have stayed there until the Day of Resurrection." And he spoke good words to the others. And he said: "There is no obedience if it involves disobedience toward Allah. Rather obedience is only (required) in that which is good.