باب: ظلم پر امیر کی مدد کرنے و الے شخص کے لیے وعید
)
Sunan-nasai:
The Book of al-Bay'ah
(Chapter: Mentioning The Warning To Those Who Help The Leader To Do Wrong)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4207.
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نو ساتھی تھے۔ آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کچھ ایسے امیر ہوں گے کہ جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے گا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اور اسے میرے پاس حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہو گا۔ اور جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم میں ان کا ساتھ نہ دے، وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور میں اس سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ لازماً میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا۔“
تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص، کسی بھی طریقے سے، حاکم و امیر کے ظلم پر اس کی حمایت و اعانت کرے گا، اس کے لیے یہ خطرناک وعید ہے کہ وہ حوض کوثر پر آنے اور جامِ کوثر نوش کرنے کی سعادت سے محروم ہو جائے گا، لہٰذا اس وعید شدید کو مدنظر رکھتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے حضور اپنی بزرگانہ و مشفقانہ، نیز عالمانہ و فاضلانہ خدمات پیش کرنے کے عوض اسمبلی کی ممبری، پرمٹ و پلاٹ اور دیگر عارضی و فانی اور زوال پذیر مراعات حاصل کرنے اور ان ”کامیابیوں“ کو اپنا کمال ہنر سمجھنے والے، متلاشیانِ قربِ شاہی، درباری ملاؤں اور اصحاب جبہ و دستار کو بھی اپنی ”سنہری خدمات“ کا ازسر نو جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ ظلم و ناانصافی والے معاملے میں حاکم و امیر کی مدد کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (2) ظالم حکمرانوں اور بے انصاف امراء سے فاصلہ رکھنا چاہیے تاکہ ان کے شر سے اپنے دین و ایمان کو سلامت رکھا جا سکے۔ ان سے قرب کی صورت میں یا تو ان کے ظلم و زیادتی پر، کسی بھی انداز سے، انہیں تعاون ملے گا یا ان کی تائید ہو گی یا پھر ظلم و زیادتی پر خاموشی اور سکوت کرنا پڑے گا، اور اصلاح کی صورت میں اپنے دین و ایمان کے فساد یا اپنی جان و مال کے اتلاف کا خطرہ ہے، اس لیے عافیت، اور سلامتی ان لوگوں سے دور رہنے ہی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سلف صلاح حکمرانوں سے دور ہی رہا کرتے تاکہ ان کے شر سے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں۔ (3) ’”تصدیق نہ کرے“ یعنی ان کے پاس جائے تو سہی مگر حق پر قائم رہے اور انہیں بھی حق کی طرف دعوت دیتا رہے۔ واقعتا یہ بلند مرتبہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4218
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4218
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4212
تمہید کتاب
یہ کتاب بیعت کے مسائل پر مشتمل ہے۔اس سے ماقبل کتاب‘تقسیم فے کے سائل کے متعلق ہے۔ان دونوں کے مابین مناسبت یہ ہے کجہ مال فے اور مال غنیمت اس وقت تقسیم ہوگا جب اسے کوئی تقسیم کرنے والا بھی ہو۔چونکہ تقسیم کی نازک اور گرانبا ذمہ داری امام اور امیر ہی کی ہوتی ہے‘اس لیے امیر کا تعین مسلمانوں پر واجب ہے۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب امیر کا تعین ہوگا تو لامحالہ اس کی بیعت بھی ہوگی۔لیکن مسلمانوں کا امام اور امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اس حساس اور نازک ذإہ داری کا ای،ایل ہوکیونکہ مسلمانوں کے تمام امور کی انجام دہی کا انحصارامیر وخلیفہ ہی لپر ہوتا ہے‘قوم وملت کی ترقی فلاح و بہبود اوعر ملکی انتظام وانصرام کا محورومرکز اس کی ذات ہوتی ہے۔حدودوتعزیرات کی تنفیذ ملک میں قیام امن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ صرف خلیفہ ہی کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب وہ شرعی طور شرائط خلیفہ کا حامل ہو‘لہٰذا جب اس منصب کے حامل شخص کا انتخاب ہوگا تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کی بیعت کرے۔یہ بیعت دراصل اس قلبی اعتماد کا ظہار ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو امیر اور امام تسلیم کیا جاتا ہے‘زنیز یہ عہد بھی ہوتا ہے کہ اہم اس وقت تک آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت بجالائیں گے جب تک آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے متلاشی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔جب تک اﷲ کی اطاعت لپر کاربندر رہیں گےبیعت کا مفہوم ومعنی ہم بھی خلوص نیت کے ساتھ آپ کے اطاعت گزار رہیں گے۔اگر آپ نے اﷲ سے وفانہ کی تو ہم سے بھی وفا کی امید نہ رکھیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کا فرمان:[لا طاعة لمن لم يطع الله]’’اﷲ کے نافرمان کی قطعاََ کوئی اطاعت نہیں۔‘‘(سودا) سے ماخوذہے۔بیع کرتے وقت لوگ عموماََ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔بعیت(معاہدہ) بیعت دراصل ایک عہد ہوتا ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی نہ ہو۔بیعت کا دستور اسلام سے پہلے کا دستور اسلام سے پہلے بھی تھا۔اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا۔ رسول اﷲﷺ سے تین قسم کی بیعت ثابت ہے:اسلام قبول کرتے وقت بیعت‘جہاد کے وقت بیعت اور شریعت کے اوامرو نواہی کے بارے میں بیعت۔بعض اوقات آپ نے تجدید عہد کے وقت بھی بیعت لی ہے۔رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد خلفاء نے بیعت خلافت لی‘یعنی نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد اہم عہدیدار ان اور معاشرے کے اہم فراد نئے خلیفہ سے بیعت کرتے تھتے کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی حتی الامکان اطاعت کریں گے۔بیعت جہاد بھی قائم رہی جو عام طور پر امام کا نائب کسی بہت اہم موقع پر لیتا تھا۔بیعت اسلام(اسلام قبول کرتے وقت) اور بیعت اطاعت (شریعت کے اوا مرونواہی کی پابندی)ختم ہوگئیں۔معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے ان دوبیعتوں کو رسول اﷲﷺ کے ساتھ خاص سمجھا۔ اگرچہ صحابہ سے یہ بات صرا حناََ ثابت نہیں مگر ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے‘لہٰذا بہتر ہے کہ ان دوبیعتوں (بیعت اسلام اور بیعت اطاعت)سے لپر ہیز کیا جائے۔البتہ بیعت خلافت اور بیعت جہاد مشروع اور باقی ہیں،لیکن بیعت اسلام اور بیعت اطاعت کو بھی قطعاََ ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔بعض صوفیاء نے جو بیعت سلسلہ ایجاد کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کا مرید بنتا ہے تو وہ اس سے بیعت لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سلسلے میں داخل ہوگیا ہے‘مثلاََ:سلسلئہ چشتیہ سلسلئہ نقش بندیہ،سلسلہ قادرییہ ،سلسلئہ سہروردیہ اور پنج پیر یہ و سلسلئہ غوثیہ وغیرہ‘ تو یہ بیعت ایجاد بندہ اور خیر القرون کے بعد کی خود ساختہ چیز ہے۔اس کو ثبوت صحابہ کرام‘تالبعیں عظام‘ائمہ دین اور محد ثین وفقہاء سے نہیں ملتا ‘اس لیے اس سے پرہیز واجب ہے خصوصاََ جب کہ ایسی بیعت کرنے والابیعت کا مفہوم و معنی سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس سلسلے کی تمام پابندیوں پر عمل کرنا لازم ہے‘خواہ وہ شریعت کے مطابق ہوں یا اس سے ٹکرارہی ہوں جب کہ قرآن وحدیث کی روسے انسان کسی بھی انسان کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں شریعت کی قید لگانا ضروری ہے‘یعنی میں تیری اطاعت کروں گا بشرطیکہ شریعت اسلامیہ کی خلاف ورشی نہ ہومگر بیعت سلاسل میں پابندی ناپید ہوتی ہے بلکہ اسے نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔بیعت سلسلہ کو بیعت اسلام پر قطعاََ قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دین الہٰی ہے اور سلسلہ ایک انسانی حلقہ فکرو عمل۔باقی رہی بیعت اطاعت تو وہ دراصل بیعت اسلام ہی کی تجدید ہے کیونکہ اطاعت سے مراد شریعت اسلامیہ ہی کی اطاعت ہے‘لہٰذا بیعت سلسلہ کو اس پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا‘نیز اس بیعت سلسلہ سے امت میں گروہ بندی اور تفریق پیدا ہوتی ہے جس سے روکا گیا ہے۔
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نو ساتھی تھے۔ آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کچھ ایسے امیر ہوں گے کہ جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے گا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اور اسے میرے پاس حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہو گا۔ اور جو شخص ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم میں ان کا ساتھ نہ دے، وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور میں اس سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ لازماً میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص، کسی بھی طریقے سے، حاکم و امیر کے ظلم پر اس کی حمایت و اعانت کرے گا، اس کے لیے یہ خطرناک وعید ہے کہ وہ حوض کوثر پر آنے اور جامِ کوثر نوش کرنے کی سعادت سے محروم ہو جائے گا، لہٰذا اس وعید شدید کو مدنظر رکھتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے حضور اپنی بزرگانہ و مشفقانہ، نیز عالمانہ و فاضلانہ خدمات پیش کرنے کے عوض اسمبلی کی ممبری، پرمٹ و پلاٹ اور دیگر عارضی و فانی اور زوال پذیر مراعات حاصل کرنے اور ان ”کامیابیوں“ کو اپنا کمال ہنر سمجھنے والے، متلاشیانِ قربِ شاہی، درباری ملاؤں اور اصحاب جبہ و دستار کو بھی اپنی ”سنہری خدمات“ کا ازسر نو جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ ظلم و ناانصافی والے معاملے میں حاکم و امیر کی مدد کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (2) ظالم حکمرانوں اور بے انصاف امراء سے فاصلہ رکھنا چاہیے تاکہ ان کے شر سے اپنے دین و ایمان کو سلامت رکھا جا سکے۔ ان سے قرب کی صورت میں یا تو ان کے ظلم و زیادتی پر، کسی بھی انداز سے، انہیں تعاون ملے گا یا ان کی تائید ہو گی یا پھر ظلم و زیادتی پر خاموشی اور سکوت کرنا پڑے گا، اور اصلاح کی صورت میں اپنے دین و ایمان کے فساد یا اپنی جان و مال کے اتلاف کا خطرہ ہے، اس لیے عافیت، اور سلامتی ان لوگوں سے دور رہنے ہی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سلف صلاح حکمرانوں سے دور ہی رہا کرتے تاکہ ان کے شر سے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں۔ (3) ’”تصدیق نہ کرے“ یعنی ان کے پاس جائے تو سہی مگر حق پر قائم رہے اور انہیں بھی حق کی طرف دعوت دیتا رہے۔ واقعتا یہ بلند مرتبہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کعب بن عجرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ ہی وہ ( قیامت کے دن) میرے پاس حوض پہ آ سکے گا۔ اور جس نے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہیں کی اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے پاس حوض پر آئے گا.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کسی حکمران، امیر، صدر، ناظم ، کسی ادارہ کے سربراہ کے حوالی موالی جو ہر نیک و بد میں اس کی خوشامد کرتے ہیں اس کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ اس حدیث میں بیان کردہ وعید شدید پر توجہ دیں، نیز یہ بات بھی قابل غورہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم امیر کے ظلم میں تعاون کرنے والے کے لیے اتنی سخت وعید تو سنائی مگراس ظالم امیر کو ہٹا دینے کی کوئی بات نہیں کی، ایسے ظالم کو نصیحت کی جائے گی یا سارے مسلمانوں کے اصحاب رائے کے مشورہ سے علاحدہ کیا جائے گا (بغیر فتنہ وفساد برپا کئے)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ka'b bin 'Ujrah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) came out to us, and there were nine of us. He said; 'After me there will be rulers, whoever believes in their lies and helps them in their wrongdoing is not of me, and I am not of him, and he will not come to me at the Cistern. Whoever does not believe their lies and does not help them in their wrongdoing, he is of me, and I am of him, and he will come to me at the Cistern.