Sunan-nasai:
The Book of al-Fara' and al-'Atirah
(Chapter: The Skin Of Dead Animals (Those Not Slaughtered Or Killed Properly))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4234.
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے جسے باہر پھینک دیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کس کی ہے؟“ لوگوں نے کہا: (ام المومنین) حضرت میمونہ ؓ کی۔ آپ نے فرمایا: ”اگر وہ اس کے چمڑے سے فائدہ اٹھا لیتی تو کیا حرج ہوتا؟“ لوگوں نے کہا: یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ﷲ تعالیٰ نے صرف اس کا (گوشت وغیرہ) کھانا حرام کیا ہے۔“
تشریح:
1۔باب کے ساتھ حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ مردہ جانور چمڑے کا حکم یہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشر طیکہ اسے رنگ دیا جائے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔| 2۔حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی امام یا ذمہ دار شخص کی بات کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے، یہ اس کے احترام کے منافی نہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھ لیا تھا کہ مردار جانور کے چمڑے سے کس طرح نفع اٹھایا جاسکتا ہے؟ 3۔قابل احترام اور ذی وقار شخصیت کو بھی سوال، بحث و تحقیق کے وقت برہم نہیں ہونا چاہیے اور نہ وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ کا بہترین اسوہ ہے کہ آپ نے لوگوں کیک پوچھنے لپر بلاتا مل بتا دیا۔ 4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب اﷲ عموم کی تخصیص حدیث شریف سے ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق طور پر فرمایا گیا ہے: مردار کی حرمت کا حکم اس کے ہر ہر جز کو شامل ہے اور ہر حال میں شامل ہے۔ حدیث اور سنت نے اس عام حکم میں یہ تخصیص کردی ہے کہ مردار جانور چمڑا رنگ لیا جائے تو اس کا استعمال حلال ہوجاتا ہے۔
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے جسے باہر پھینک دیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کس کی ہے؟“ لوگوں نے کہا: (ام المومنین) حضرت میمونہ ؓ کی۔ آپ نے فرمایا: ”اگر وہ اس کے چمڑے سے فائدہ اٹھا لیتی تو کیا حرج ہوتا؟“ لوگوں نے کہا: یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ﷲ تعالیٰ نے صرف اس کا (گوشت وغیرہ) کھانا حرام کیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔باب کے ساتھ حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ مردہ جانور چمڑے کا حکم یہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشر طیکہ اسے رنگ دیا جائے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔| 2۔حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی امام یا ذمہ دار شخص کی بات کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے، یہ اس کے احترام کے منافی نہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھ لیا تھا کہ مردار جانور کے چمڑے سے کس طرح نفع اٹھایا جاسکتا ہے؟ 3۔قابل احترام اور ذی وقار شخصیت کو بھی سوال، بحث و تحقیق کے وقت برہم نہیں ہونا چاہیے اور نہ وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ کا بہترین اسوہ ہے کہ آپ نے لوگوں کیک پوچھنے لپر بلاتا مل بتا دیا۔ 4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب اﷲ عموم کی تخصیص حدیث شریف سے ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق طور پر فرمایا گیا ہے: مردار کی حرمت کا حکم اس کے ہر ہر جز کو شامل ہے اور ہر حال میں شامل ہے۔ حدیث اور سنت نے اس عام حکم میں یہ تخصیص کردی ہے کہ مردار جانور چمڑا رنگ لیا جائے تو اس کا استعمال حلال ہوجاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک پڑی ہوئی مردار بکری کے پاس سے ہوا، آپ نے فرمایا: ”یہ کس کی ہے؟“ لوگوں نے کہا: میمونہ کی۔ آپ نے فرمایا: ”ان پر کوئی گناہ نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتیں“، لوگوں نے عرض کیا: وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے (صرف) اس کا کھانا حرام کیا ہے.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اس کے جسم کے دیگر اعضاء مثلاً بال، دانت، سینگ وغیرہ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas (RA), from Maimunah (RA), that: the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) passed by a dead sheep that had been thrown aside. He said: "Who does this belong to?" They said: "Maimunah." He said: "Why did she not make use of its skin?" They said: "It is dead meat (i.e., it was not slaughtered properly)." He said: "Allah, the Mighty and Sublime, has only forbidden us to eat it.