Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: The Prohibition Of The Price Of A Dog)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4292.
حضرت ابو مسعود عقبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی شیرینی (نذرو نیاز) سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) جمہور اہل علم کے نزدیک کتے کی خرید و فروخت منع ہے، خواہ اس کا رکھنا جائز ہو یا ناجائز، اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ کتا خریدنے یا بیچنے والی چیز نہیں کہ اس کو کمائی کا ذریعہ بنایا جائے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کتے کی خرید و فروخت کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ چونکہ ہر کتے سے شکار اور حفاظت کا کام لیا جاسکتا ہے، لہٰذا ہر کتے کی خرید و فروخت جائز ہے، عام کی نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات صریح حدیث کے مقابلے میں قابل تسلیم نہیں۔ وہ اس حدیث کو اس دور سے متعلق بتاتے ہیں جب آپ نے کتے مارنے کا حکم دیا تھا۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی۔ لیکن یہ صرف ایک احتمال ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (2) ”زانیہ کی اجرت“ چونکہ زنا جرم ہے، لہٰذا اس کی اجرت بھی حرام ہے اور یہ متفقہ بات ہے۔ (3) ”کاہن کی نذر ونیاز“ کاہن سے مراد غیب کی خبریں بتانے والا ہے۔ ان لوگوں کے جنات وشیا طین سے روابط ہوتے ہیں، لہٰذا یہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کام منع ہے، اس لیے اس پر ملنے والی چیز بھی منع ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ کسی سے غیب کی خبریں پوچھنا جائز ہے اور نہ بتانا کیونکہ جنات وشیا طین ایک سچ کے ساتھ کئی جھوٹ بھی بولتے ہیں، لہٰذا ان کی بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت ابو مسعود عقبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی شیرینی (نذرو نیاز) سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) جمہور اہل علم کے نزدیک کتے کی خرید و فروخت منع ہے، خواہ اس کا رکھنا جائز ہو یا ناجائز، اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ کتا خریدنے یا بیچنے والی چیز نہیں کہ اس کو کمائی کا ذریعہ بنایا جائے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کتے کی خرید و فروخت کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ چونکہ ہر کتے سے شکار اور حفاظت کا کام لیا جاسکتا ہے، لہٰذا ہر کتے کی خرید و فروخت جائز ہے، عام کی نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات صریح حدیث کے مقابلے میں قابل تسلیم نہیں۔ وہ اس حدیث کو اس دور سے متعلق بتاتے ہیں جب آپ نے کتے مارنے کا حکم دیا تھا۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی۔ لیکن یہ صرف ایک احتمال ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (2) ”زانیہ کی اجرت“ چونکہ زنا جرم ہے، لہٰذا اس کی اجرت بھی حرام ہے اور یہ متفقہ بات ہے۔ (3) ”کاہن کی نذر ونیاز“ کاہن سے مراد غیب کی خبریں بتانے والا ہے۔ ان لوگوں کے جنات وشیا طین سے روابط ہوتے ہیں، لہٰذا یہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کام منع ہے، اس لیے اس پر ملنے والی چیز بھی منع ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ کسی سے غیب کی خبریں پوچھنا جائز ہے اور نہ بتانا کیونکہ جنات وشیا طین ایک سچ کے ساتھ کئی جھوٹ بھی بولتے ہیں، لہٰذا ان کی بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومسعود عقبہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت۱؎ زانیہ عورت کی کمائی۲؎ اور کاہن کی اجرت ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کتا نجس و ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر، جائیداد اور جانوروں کی رکھوالی کے لیے ہو۔ مگر ایسے کتوں کی بھی تجارت ناپسندیدہ ہے، اور جس حدیث میں اس کی رخصت کی بات آئی ہے اس کی صحت میں سخت اختلاف ہے، (جیسے حدیث نمبر:۴۳۰۰) ۲؎ چونکہ زنا بڑے گناہوں اور فحش کاموں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی نا پاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ۳؎ : علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا بڑا گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل طریقے سے لوگوں سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Bakr bin 'Abdur-Rahman bin Al-Harith bin Hisham that her heard Abu Mas ud 'Uqbah say: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade the price of a dog, the gift of a female fornicator and the fees of a fortune-teller."( Sahih)