باب: گھریلو جانور وحشی بن جائے ( جنگلی جانور کی طرح بھاگ جائے ) تو ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: Domesticated Animals That Turn Wild)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4297.
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ میں تھے۔ لوگوں کو کچھ اونٹ اور بکریاں ملیں۔ رسول اللہ ﷺ کے آخر میں تھے۔ لشکر کے ابتدائی لوگوں نے جلدی کرتے ہوئے ان جانوروں کو ذبح کیا اور ہانڈیاں (یا دیگیں) چڑھا دیں۔ جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ دیگیں الٹ دی جائیں، پھر آپ نے غنیمت ان میں تقسیم فرمائی اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اس دوران میں ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ لوگوں کے پاس خال خال گھوڑے تھے۔ لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ قابو نہ آسکا۔ ایک آدمی نے اس کو تیر مارا تو وہ رک گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان گھریلو جانوروں میں بھی بعض کبھی کبھی وحشی بن جاتے(جنگلی جانوروں کی طرح انسانوں سے بھاگنے لگتے) ہیں، لہٰذا اگر کوئی جانور قابو نہ آئے تو اس سے یہی سلوک کرو۔“
تشریح:
(1) گھریلو جانور جب وحشی بن جائے اور انسانوں سے متنفر ہو کر بھاگ کھڑا ہو تو اس پر وحشی (جنگلی) جانور والا حکم لگے گا۔ ایسی صورت میں جب اس قسم کے جانور پر قابو پانا اور اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اسے خشکی کے شکار کی طرح زخمی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ذبح کرنے سے پہلے مر جانے کی صورت میں اس پر جنگلی شکاری جانوروں والا حکم ہی لاگو ہوگا، یعنی زخمی ہونے کے بعد زندہ قابو آنے کی صورت میں اسے ذبح کرنا ضروری ہو گا جبکہ اس سے پہلے مر جانے کی صورت میں، اگر اسے اللہ کا نام لے کر تیریا گولی وغیرہ ماری گئی ہو تو وہ حلال سمجھا جائے گا اور اس کا گوشت کھانا درست ہو گا۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ واللہ أعلم (2) مشترکہ مال میں‘ اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف ناجائز ہے اگرچہ وہ مال تھوڑا ہی ہو، خواہ ضرورت کا تقاضا یہی کیوں نہ ہو۔ (3) یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کمال درجے کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی واضح دلیل ہے کہ سخت بھو کے ہونے کے باوجود انھوں نے ابلتی ہانڈیاں الٹا دیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے حکم سے سر موانحراف نہیں کیا۔ (4) شرعی مصلحت کا تقاضا ہو تو حاکم وقت رعایا کو سزا دے سکتا ہے، خواہ اس صورت میں مال ضائع ہی کیوں نہ ہوتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ شرعی مصلحت ہی غالب ہو۔ محض اپنی اَنا کی تسکین کے لیے سزا دینا مقصود نہ ہو۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مخلوط اور ملے جلے غنیمت میں ہر چیز کی الگ الگ تقسیم ضروری نہیں بلکہ تعدیل و تقویم (مختلف اشیاء میں کمی بیشی کر کے انھیں قیمتاََ ایک دوسرے کے برابر قرار دینا) بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس بکریوں کو ایک ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔ (6) اصول یہ ہے کہ گھریلو جانوروں کو قابو کر کے حلق سے ذبح کیا جائے۔ چھوٹے جانوروں کو لٹا کر ذبح کیا جائے۔ اور اونٹ کو کھڑا کر کے اس کا بایاں گھٹنا باندھ کر اس کے حلق میں چھری کی نوک یا نیزہ وغیرہ مار کر اسے نحر کیا جائے۔ گھریلو جانوروں کو شکار کی طرح تیر مار کر ذبح نہیں کرنا چاہیے، البتہ جنگلی جانور چونکہ انسانوں کے قابو میں آتے، لہٰذا ان کے لیے یہی طریقہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیر پھینکا جائے، جہاں بھی جا لگے۔ جب وہ خون نکلنے سے کمزور ہو جائے تو اس کو پکڑلے اور ذبح کر لے لیکن اگر وہ اسی تیر سے بے جان ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (7) ”تہامہ کا ذوالحلیفہ“ اشارہ ہے کہ یہاں وہ ذوالحلیفہ مراد نہیں جو مدینہ کا میقات ہے اور جہاں احرام باندھا جاتا ہےبلکہ یہ اور ذوالحلیفہ ہے۔ (8) ”ذبح کیا“ نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر، حالانکہ مال غنیمت امیر کی معرفت تقسیم ہونا چاہیے۔ (9) ”دس بکریاں“ معلوم ہوا دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہیں، لہٰذا اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ (10) ”خال خال گھوڑے تھے“ یعنی اونٹ کا تعاقب کرنے اور اسے پکڑنے لے لیے گھوڑے مہیا نہ ہو سکے۔ اور گھوڑوں کے بغیر اسے پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔ (11) ”بھاگنے لگتے ہیں“ یعنی وحشت محسوس کرتے ہیں۔ عربی میں لفظ أوابد استعمال ہوا ہے جو آبدة کی جمع ہے۔ اس کے معنیٰ غیر مانوس، وحشی، بدکنے اور بھاگنے والے جانور کے ہیں۔ چونکہ جنگلی جانور انسان سے غیر مانوس ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی بھاگتے ہیں، اس لیے انھیں أوابد کہا جاتا ہے۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ میں تھے۔ لوگوں کو کچھ اونٹ اور بکریاں ملیں۔ رسول اللہ ﷺ کے آخر میں تھے۔ لشکر کے ابتدائی لوگوں نے جلدی کرتے ہوئے ان جانوروں کو ذبح کیا اور ہانڈیاں (یا دیگیں) چڑھا دیں۔ جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ دیگیں الٹ دی جائیں، پھر آپ نے غنیمت ان میں تقسیم فرمائی اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اس دوران میں ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ لوگوں کے پاس خال خال گھوڑے تھے۔ لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ قابو نہ آسکا۔ ایک آدمی نے اس کو تیر مارا تو وہ رک گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان گھریلو جانوروں میں بھی بعض کبھی کبھی وحشی بن جاتے(جنگلی جانوروں کی طرح انسانوں سے بھاگنے لگتے) ہیں، لہٰذا اگر کوئی جانور قابو نہ آئے تو اس سے یہی سلوک کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) گھریلو جانور جب وحشی بن جائے اور انسانوں سے متنفر ہو کر بھاگ کھڑا ہو تو اس پر وحشی (جنگلی) جانور والا حکم لگے گا۔ ایسی صورت میں جب اس قسم کے جانور پر قابو پانا اور اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اسے خشکی کے شکار کی طرح زخمی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ذبح کرنے سے پہلے مر جانے کی صورت میں اس پر جنگلی شکاری جانوروں والا حکم ہی لاگو ہوگا، یعنی زخمی ہونے کے بعد زندہ قابو آنے کی صورت میں اسے ذبح کرنا ضروری ہو گا جبکہ اس سے پہلے مر جانے کی صورت میں، اگر اسے اللہ کا نام لے کر تیریا گولی وغیرہ ماری گئی ہو تو وہ حلال سمجھا جائے گا اور اس کا گوشت کھانا درست ہو گا۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ واللہ أعلم (2) مشترکہ مال میں‘ اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف ناجائز ہے اگرچہ وہ مال تھوڑا ہی ہو، خواہ ضرورت کا تقاضا یہی کیوں نہ ہو۔ (3) یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کمال درجے کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی واضح دلیل ہے کہ سخت بھو کے ہونے کے باوجود انھوں نے ابلتی ہانڈیاں الٹا دیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے حکم سے سر موانحراف نہیں کیا۔ (4) شرعی مصلحت کا تقاضا ہو تو حاکم وقت رعایا کو سزا دے سکتا ہے، خواہ اس صورت میں مال ضائع ہی کیوں نہ ہوتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ شرعی مصلحت ہی غالب ہو۔ محض اپنی اَنا کی تسکین کے لیے سزا دینا مقصود نہ ہو۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مخلوط اور ملے جلے غنیمت میں ہر چیز کی الگ الگ تقسیم ضروری نہیں بلکہ تعدیل و تقویم (مختلف اشیاء میں کمی بیشی کر کے انھیں قیمتاََ ایک دوسرے کے برابر قرار دینا) بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس بکریوں کو ایک ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔ (6) اصول یہ ہے کہ گھریلو جانوروں کو قابو کر کے حلق سے ذبح کیا جائے۔ چھوٹے جانوروں کو لٹا کر ذبح کیا جائے۔ اور اونٹ کو کھڑا کر کے اس کا بایاں گھٹنا باندھ کر اس کے حلق میں چھری کی نوک یا نیزہ وغیرہ مار کر اسے نحر کیا جائے۔ گھریلو جانوروں کو شکار کی طرح تیر مار کر ذبح نہیں کرنا چاہیے، البتہ جنگلی جانور چونکہ انسانوں کے قابو میں آتے، لہٰذا ان کے لیے یہی طریقہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیر پھینکا جائے، جہاں بھی جا لگے۔ جب وہ خون نکلنے سے کمزور ہو جائے تو اس کو پکڑلے اور ذبح کر لے لیکن اگر وہ اسی تیر سے بے جان ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (7) ”تہامہ کا ذوالحلیفہ“ اشارہ ہے کہ یہاں وہ ذوالحلیفہ مراد نہیں جو مدینہ کا میقات ہے اور جہاں احرام باندھا جاتا ہےبلکہ یہ اور ذوالحلیفہ ہے۔ (8) ”ذبح کیا“ نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر، حالانکہ مال غنیمت امیر کی معرفت تقسیم ہونا چاہیے۔ (9) ”دس بکریاں“ معلوم ہوا دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہیں، لہٰذا اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ (10) ”خال خال گھوڑے تھے“ یعنی اونٹ کا تعاقب کرنے اور اسے پکڑنے لے لیے گھوڑے مہیا نہ ہو سکے۔ اور گھوڑوں کے بغیر اسے پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔ (11) ”بھاگنے لگتے ہیں“ یعنی وحشت محسوس کرتے ہیں۔ عربی میں لفظ أوابد استعمال ہوا ہے جو آبدة کی جمع ہے۔ اس کے معنیٰ غیر مانوس، وحشی، بدکنے اور بھاگنے والے جانور کے ہیں۔ چونکہ جنگلی جانور انسان سے غیر مانوس ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی بھاگتے ہیں، اس لیے انھیں أوابد کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہامہ کے ذی الحلیفہ میں تھے تو لوگوں کو کچھ اونٹ ملے اور کچھ بکریاں (بطور مال غنیمت) اور رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں کے پیچھے تھے، تو آگے کے لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم غنیمت سے پہلے) انہیں ذبح کیا اور ہانڈیاں چڑھا دیں ، اتنے میں رسول اللہ ﷺ پہنچے، آپ نے حکم دیا تو ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا، ابھی وہ اسی میں مصروف تھے کہ اچانک ایک اونٹ بھاگ نکلا، لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے، وہ اس کو پکڑنے دوڑے تو اس نے انہیں تھکا دیا، ایک شخص نے ایک تیر پھینکا تو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا (تیر لگ جانے سے) اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان چوپایوں میں بعض وحشی ہو جاتے ہیں جنگلی جانوروں کی طرح، لہٰذا جو تم پر غالب آ جائے (یعنی تمہارے ہاتھ نہ آئے) اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: جب اختیاری طور پر ذبح نہ کر سکو تو ذبح کی اضطراری شکل اختیار کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Rafi bin Khadij said: "While we were with the Messenger of Allah (ﷺ) at Dhul-Hulaifah in Tihamanb, they acquired some camels and sheep (as spoils of war). The Messenger of Allah (ﷺ) was among the last of the people, and the first of them hastened to slaughter (the animals) and set up pots (For cooking the meat). The Messenger of Allah (ﷺ) came and ordered that the pots be came and ordered that the pots be overturned, then he divided it making ten sheep equivalent to one camel. While they were like that, a camel ran away. The people had only a few horses, so they went after fit and it and it got away from them. A man shot an arrow at it and stopped it. The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Some of these animals arte untamed like wild animals, so if one of them goes out of your control, do the same.