Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: Following Game)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4309.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص صحرا میں رہے گا، سخت طبیعت ہو جائے گا۔ اور جو شخص شکار کے پیچھے لگ گیا، وہ (ہر چیز سے) غافل ہوگیا۔ اور جو شخص بادشاہ کا دم چھلہ بنا، وہ آزمائش میں پڑ گیا۔“ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے بادیہ نشینی اور صحرا نشینی کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے، اور وہ اس طرح کہ ایسا شخص زیادہ تر اہل علم کی مجلس سے دور ہی رہتا ہے، اسی طرح وہ اخلاق فاضلہ سے بھی دور ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ صحرا نشین شخص جمعہ وجماعت اور اس کی دیگر خیر و برکات اور فہم دین کی مجالس و محافل سے بھی اکثر و بیشتر الگ تھلگ رہتا ہے۔ (2) شرعاً ایک حد تک شکار کرنے کی اجازت ہے، تاہم یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ کسی انسان کا محض شکار کا ہو کر رہ جانا انتہائی مذموم ہے، اس لیے کہ ایسا شخص اپنے دینی اور دنیوی واحباب و فرائض سے غافل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے جانا بالکل ممنوع نہیں۔ اگر شکار ممنوع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت عدی بن حاتم اور ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کو اس کی اجازت نہ دیتے۔ المختصر اعتدال میں رہتے ہوئے شکار کرنا درست ہے، افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ (3) حدیث مذکور سے حکمرانوں اور صاحب اختیار واقتدار لوگوں کا کاسہ لیسی کرنے اور ان کے دروازوں پر حاضری دینے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ملوک وسلاطین کا قرب اچھے بھلے انسان کو فتنوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ فتنے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ جسمانی فتنے تو اس طرح ہو سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی وجہ سے اور ان کے اختیار کردہ منکرات و فواحش کا انکار کرنے سے جسمانی سزائیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں جیسا کہ دنیا دار، نفس پرست بادشاہوں اور اصحاب اقتدار کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ان کے دین کو خطرہ ہوتا ہے، یعنی حکمرانوں کی موافقت کرنے سے یا ان کی بے راہ روی اور منکرات پر خاموش رہنے سے دین سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ أعاذنا اللہ منه۔ (4) ”وہ غافل ہو گیا“ کیونکہ شکار پتا نہیں کہاں کہاں بھاگتا پھرے۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں، دوسرے سے تیسرے میں وہکذا، لہٰذا اس کے پیچھے پیچھے پھرنے والا شخص اپنے گھر بار سے دور ہوجائے گا۔ گھریلو کام پڑے رہ جائیں گے۔ ایسا شخص نماز روزے کا پابند بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر شکار ملے یا نہ ملے۔ گویا وہ دنیا سے بھی گیا اور آخرت سے بھی۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص صحرا میں رہے گا، سخت طبیعت ہو جائے گا۔ اور جو شخص شکار کے پیچھے لگ گیا، وہ (ہر چیز سے) غافل ہوگیا۔ اور جو شخص بادشاہ کا دم چھلہ بنا، وہ آزمائش میں پڑ گیا۔“ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے بادیہ نشینی اور صحرا نشینی کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے، اور وہ اس طرح کہ ایسا شخص زیادہ تر اہل علم کی مجلس سے دور ہی رہتا ہے، اسی طرح وہ اخلاق فاضلہ سے بھی دور ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ صحرا نشین شخص جمعہ وجماعت اور اس کی دیگر خیر و برکات اور فہم دین کی مجالس و محافل سے بھی اکثر و بیشتر الگ تھلگ رہتا ہے۔ (2) شرعاً ایک حد تک شکار کرنے کی اجازت ہے، تاہم یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ کسی انسان کا محض شکار کا ہو کر رہ جانا انتہائی مذموم ہے، اس لیے کہ ایسا شخص اپنے دینی اور دنیوی واحباب و فرائض سے غافل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے جانا بالکل ممنوع نہیں۔ اگر شکار ممنوع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت عدی بن حاتم اور ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کو اس کی اجازت نہ دیتے۔ المختصر اعتدال میں رہتے ہوئے شکار کرنا درست ہے، افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ (3) حدیث مذکور سے حکمرانوں اور صاحب اختیار واقتدار لوگوں کا کاسہ لیسی کرنے اور ان کے دروازوں پر حاضری دینے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ملوک وسلاطین کا قرب اچھے بھلے انسان کو فتنوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ فتنے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ جسمانی فتنے تو اس طرح ہو سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی وجہ سے اور ان کے اختیار کردہ منکرات و فواحش کا انکار کرنے سے جسمانی سزائیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں جیسا کہ دنیا دار، نفس پرست بادشاہوں اور اصحاب اقتدار کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ان کے دین کو خطرہ ہوتا ہے، یعنی حکمرانوں کی موافقت کرنے سے یا ان کی بے راہ روی اور منکرات پر خاموش رہنے سے دین سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ أعاذنا اللہ منه۔ (4) ”وہ غافل ہو گیا“ کیونکہ شکار پتا نہیں کہاں کہاں بھاگتا پھرے۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں، دوسرے سے تیسرے میں وہکذا، لہٰذا اس کے پیچھے پیچھے پھرنے والا شخص اپنے گھر بار سے دور ہوجائے گا۔ گھریلو کام پڑے رہ جائیں گے۔ ایسا شخص نماز روزے کا پابند بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر شکار ملے یا نہ ملے۔ گویا وہ دنیا سے بھی گیا اور آخرت سے بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو «باديہ» (دیہات) میں رہے گا وہ سخت مزاج ہو گا، اور جو شکار کا پیچھا کرے گا وہ (اس کے علاوہ دوسری چیزوں سے) غافل ہو جائے گا، اور جو بادشاہ کا چکر لگائے گا وہ فتنے اور آزمائش میں پڑ جائے گا.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Whoever lives in the desert, he becomes hard-hearted, and whoever follows game becomes preoccupied with it (and neglectful toward other duties), and whoever follows the ruler will put himself through trial."(Sahih) The wording is of Ibn Al-Muthanna.